کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 30
{اِئْتُوْا اَلْمَسَاجِدَ حُسَّرًا مُعَصَّبِیْنَ فَاِنَّ الْعَمَائِمَ تِیْجَانُ الْمُسْلِمِیْنَ } (۲۹)
’’مساجد میں ننگے سر آؤ اور پگڑیاں باندھ کر آؤ۔ بے شک پگڑیاں تو مسلمانوں کے تاج ہیں۔‘‘
اور تاریخ ابنِ عساکر میں اس کے الفاظ میں معمُولی سا فرق ہے، وہاں ہے:
{اِئْتُوْاَلْمَسَاجِدَ حُسَّرًا وَ مُقَنِّعِیْنَ فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ سِیْمَا الْمُسْلِمِیْنَ}
’’مساجد میں ننگے سر آؤ یا ٹوپی پہن کر یہ (ٹوپی پہننا ایک) مسلمانوں کی نشانی ہے۔‘‘
اور معنی اس کا بھی تقریباً وہی ہے۔
اس روایت کے دونوں طرح کے الفاظ سے جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے کہ بیک وقت دو دلیلیں لی جاسکتی ہیں۔ ایک ننگے سر مساجد میں جانے اور نماز پڑھنے کے جواز کی، دوسری اس کے سراسر برعکس پگڑی یا عمامہ باندھنے کی فضیلت کی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے یہ روایت کِسی ایک پر بھی استدلال کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ محدّثین کرام نے اسے سخت ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے کیونکہ اس روایت کے دونوں طرق میں ایک راوی میسرہ بن عبد ربّہ ہے جو خود اس بات کا معترف ہے کہ وہ ’’وضّاع‘‘ ہے۔ یعنی روایتیں گھڑتا ہے۔ اور علّامہ عُراقی نے اسے متروس قرار دیا ہے (۳۰)
اس کے ابنِ عساکر والے طریق میں جو کہ الکامل میں بھی ہے۔ اس میں ایک راوی مبشّر بن عبید ہے جس کے بارے میں ابن عدی نے کہا ہے:
{مُبَشِّرٌ ھَٰذَا بَیِّنُ الْاَمْرِ فِی الْضُّعْفِ وَعَامَّۃُ مَایَرْوِیْہِ غَیْرُ مَحْفُوْظ}
یہ مبشر ضعیف ہونے میں واضح ہے، اور اس کی مرویات عموماً غیر محفوظ ہیں۔
اور امام احمد بن حنبل اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
{کَانَ یَضَعُ الْحَدِیْثَ}
’’وہ حدیثیں گھڑاکرتا تھا۔‘‘
اور الضعفاء و المتروکین (۳/۳۰) میں امام ابنِ حبّان نے کہا ہے: