کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 29
{رَاَیْتُ شَرِیْکاً صَلّٰی بِنَا فِیْ جَنَازَۃٍ الْعَصْرَ فَوَضَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ بَیْنَ یَدَیْہَ یَعْنِیْ فِیْ فَرِیْضَۃٍ }(۲۷)
میں نے شریک کو دیکھا کہ انہوں نے ایک جنازہ کے موقع پر ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور اپنی ٹوپی فرض نماز پڑھاتے وقت اپنے سامنے رکھ لی۔ اس سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ اثر بھی کئی وجوہ کی بناء پر نا قابلِ حجّت و استدلال ہے، جیسا کہ مولانا اسمٰعیل سلفی صاحب لکھتے ہیں :
اوّلاً: اس لئے کہ یہ نہ تو مرفوع حدیث ہے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ کا کوئی عمل بیان ہوا ہو، اور نہ ہی یہ کسی صحابی کا اثر ہے، بلکہ یہ صحابہ کے بعد والوں میں سے کسی کا اثر ہے۔
ثانیاً: یہ کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ شریک کون بزرگ ہیں ، یہ شریک بن عبداﷲ بن ابی نمرتا بعی ہیں یا کہ شریک بن عبداﷲ نخعی تبع تابعی ہیں۔ اور ان دونوں میں سے چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو، دونوں میں ہی کم و بیش ضعف پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ اثر بھی ضعیف ہوا۔ اور پھر یہ کہ ان کا اپنا عمل ہے جو کسی طرح بھی قابل ِحجّت نہین۔
ثالثاً: اس لئے بھی اس اثر کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ امام ابو داؤد نے اس اثر کو اپنی سُنن کے بَابُ الْخَطِّ اِذَا لَمْ یَجِدْ عَصَا کے تحت وارد کیا ہے کہ جب عصا نہ ہو تو سُترے کے لئے لکیر کھینچنے کا بیان۔
امام صاحب کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ضرورتاً سر ننگا رکھا گیا ہے کیونکہ جب انہیں سُترہ کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو انہوں نے سُترہ کا کام ٹوپی سے لے لیا۔ ضرورت اور عذر سے سر ننگا رکھا جائے تو اس میں بحث نہیں۔ بحث اس میں ہے کہ فیشن اور عادت کے طور پر نماز میں سر ننگا رکھنا کہاں تک درست ہے؟(۲۸)
تیسری دلیل: ایسے ہی ایک تیسری حدیث بھی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس میں تو ننگے سر مساجد میں آنے کے لئے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ الکامل لابنِ عدی میں دو طریق سے اور تاریخ ِدمشق ابنِ عساکر میں ایک طریق سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے یعنی اس کلام کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جس میں ہے: