کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 28
کے جواز کی دلیل کے طور پر (تاریخ ِدمشق) ابنِ عساکر کے حوالہ سے حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما کی بیان کردہ روایت پیش کی ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں : {اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ رُبَّمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَ تَہَ فَجَعَلَھَا سُتْرَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ }(۲۵) ’’نبی اکرم ﷺ بعض دفعہ اپنی ٹوپی اتار کر اسے اپنے سامنے بطورِ سُترہ رکھ لیتے تھے۔‘‘ اس روایت سے دو وجوہ کی بنا ء پر ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ اوّلاً: اس لئے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صاحب تمام المنّہ کے بقول اس کے ضعیف ہونے پر دلالت کرنے کے لئے یہی امر کافی ہے کہ اسے روایت کرنے میں ابنِ عساکرمتفرّدہے۔ اور انہوں نے سلسلتہ الاحادیث الضعیفہ (۲۵۳۸) میں اس کا سبب بھی بیان کیا ہے۔ ثانیاً: اس لئے بھی اس روایت سے ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال صحیح نہیں ،کیونکہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس روایت کے ظاہری الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایسا اس وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسّر نہ آئی جسے بطورِسُترہ آپ ﷺ اپنے سامنے رکھ لیتے اور سُترہ کے بارے میں وارد شُدہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سر کے ڈھانپنے سے بھی اہم فعل ہے ۔(۲۶) اور وہ احادیث بھی اپنے موقع پر ذکر کی جائیں گی، اِن شآء اﷲ۔ تو گویا علیٰ و جہ الَتنزّل اس روایت کو صحیح بھی ما ن لیا جائے تو اس میں مذکور نبی اکرم ﷺ کا فعل یعنی سرِ اقدس سے ٹوپی اتارکر اسے بطور ِسُترہ اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھنا ایک ایسی ضرورت کے لئے تھا جو کہ سر ڈھانپنے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ لہٰذااس سے مطلق جو از اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری دلیل: تقریباً اسی حدیث سے ملتا جلتا ایک اثر سُنن ابی داؤد میں ہے، اس سے بھی ننگے سر کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔ اس اثر میں عبد اﷲ بن محمد زہری بیان کرتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے فرمایا: