کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 27
اور وہ عام دلیل یہ ہے: ’’نماز کے لئے دَورِحاضر سے کچھ پہلے کا معروف اسلامی لباس پہن کر اس سے زینت اختیار کرنا، دَورِ سلف صالحین میں ننگے سر رہنا، چلنا پھرنا اور اسی حالت میں ہی مساجد میں چلے جانا عرفِ عام میں اچھی حیثیت شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ اور یہ بات ان کے یہاں خلافِ زینت تھی ‘‘۔(۲۳) نماز کے وقت زینت کو اختیار کرنے کا خود اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورۂ اعراف آیت ۳۱ میں ارشاد ِالٰہی ہے: {یٰبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} ’’اے بنی آدم ! ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو۔‘‘ نماز کے وقت زینت اختیا ر کرنے کی ترغیب نبی اکرم ﷺ نے بھی دلائی ہے۔ جیسا کہ طبرانی ، اوسط، بیہقی اور معانی الآثار کے حوالہ سے ہم پہلے بھی حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیث ذکر کر چکے ہیں۔ جِس میں ارشاد نبوی ہے : {اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَلْبَسْ ثَوْبَیْہِ فَاِنَّ اللّٰهِ اَحَقُّ مَنْ تُزُیِّنَ لَہُ }(۲۴) ’’تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے تو اپنے دونوں کپڑے پہنے، بے شک اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے زینت اختیار کی جائے۔‘‘ اس آیت و حدیث اور سلف صالحین کے عُرف عام میں ننگے سر نہ پھرنے سے عمامہ و ٹوپی کی فضیلت یا کم ازکم ننگے سر نماز کی نسبت اس کی افضلیّت کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ عام دلیل ہے۔ جب کہ عمامہ کی فضیلت والی خاص احادیث ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ سب واقعی موضوع و من گھڑت ہیں۔ ۳۔ ننگے سر نماز کے دلائِل کی استنادی حیثیّت: فقہ السنّہ کے مؤلّف سیّد سابق کے اقتباس پر وارد ہونے والے مؤاخذات و اعتراضات میں سے دو ذکر کئے گئے ہیں۔ پہلی دلیل: جب کہ اس اقتباس میں ایک تیسری بات بھی مذکور ہے کہ موصوف نے ننگے سر نماز