کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 26
کرنا چاہیئے۔‘‘ (۲۰) اسی سلسلہ میں فقہ السنہ کی تحقیق و تعلیق کے طور پر لکھی گئی کتاب تمام المنّتہ میں علّامہ ناصر الدین البانی ؒ نے لکھا ہے : خشوع کی نیّت سے ننگے سر نماز کا استحباب دین میں ایک ایسے حکم کو جاری کرنا ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں سوائے رائے کے اور اگر یہ فعل حق ہوتا تو نبی اکرم ﷺ اسے ضرور اختیا ر فرماتے۔ اور اگر آپ ﷺ نے اختیا ر فرمایا ہوتا تو ضرور آپ ﷺ سے منقول ہوتا اور جب اس سلسلہ میں آپ ﷺ سے کچھ منقول نہیں ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظر یہ ایک خود ساختہ بدعت ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہیئے۔(۲۱) اب رہی یہ بات کے ننگے سر نماز کو خشوع کی علامت قرار دینے کے لئے اور اسکا جواز و پیدا استحباب کرنے کے لئے اسے موسم ِحج میں بحالتِ احرام حاجی کے ننگے سر رہنے پر قیاس کیا جائے، جیسا کہ کتبِ فقہ میں وارد ہوا ہے (اورانصارالسّنّہ مصر کے بعض اخوان نے بھی اس سے جواز پر استدلال کیا ہے) تو یہ قیاس درست نہیں بلکہ صاحب تمام المِنّہ نے اسے قیاسِ باطل قرار دیا ہے۔ کیونکہ دورانِ احرام ننگے سر رہنا حج کا شعار ہے۔ اور یہ فعل مناسکِ حج میں سے ہے، جس میں دوسری کوئی عبادت اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ اور اگر یہ قیاس صحیح ہوتا تو پھر لازماً یہ بھی کہنا پڑتا کہ ننگے سر نماز پڑھنا (مستحب نہیں بلکہ) واجب ہے، کیونکہ حج میں (دَورانِ احرام) سر ننگا رکھنا واجب ہے۔ اور یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ جس کی رو سے اس قیاس سے رجوع کئے بغیر کوئی چارۂ کار ہی نہیں رہتا۔ ولعلّہم یفعلون (۲۲) ۲۔ فقہ السنّہ میں ایک دوسری بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ نماز میں سر کو ڈھانپنے کی افضلیّت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل واردنہیں ہوئی۔ مؤلّف کا کسی بھی دلیل کے وارد ہونے کی مطلقاً نفی کردینا صحیح نہیں ۔ البتہ اگر وہ کہتے ہیں کہ افضلیّت پر دلالت کرنے والی کوئی خاص دلیل وارد نہیں ہوئی تو پھر ان کی یہ بات مسلّم ہے۔ اور کسی خاص دلیل کا نہ ہونا کسی عام دلیل کے وارد ہونے کی نفی بھی نہیں کرتا، اور سر کو ڈھانپنے کی عام دلیل موجود ہے۔ اور اس قاعدے پر بھی تمام (علماء ِاصول کا) اتفاق ہے۔ کہ جب کوئی معارض و مخالف دلیل نہ ہو تو عام دلیل بھی حجّت ہوتی ہے