کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 25
تھے‘‘۔(۱۷) اور احناف سے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک آدمی کے ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ فعل خشوع کے لئے ہو تو ان کے نزدیک مستحب ہے اور نماز میں سر کو ڈھانپنے کی افضلیّت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی (۱۸)۔ تو گویا سیّد سابق کے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،جسے انہوں نے ابنِ عساکر کی روایت سے ثابت کیا ہے، بلکہ خشوع کی نیّت سے ہو تو مستحب ہے۔ جیسا کہ انہوں نے احناف سے نقل کرکے اسے بر قرار رکھا ہے، اور سر کو ڈھانپ کر نماز پڑھنے کی افضلیّت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے۔ مؤاخذات و اعتراضات: موصوف کے اس اقتباس مین تین باتیں کہی گئی ہیں اور ان تینوں پر ہی مؤاخذات و اعتراضات وارد ہوتے ہیں، مثلاً: ۱۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر خشوع کی نیّت سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو یہ مستحب ہے، جیسا کہ فقہ السنّہ کے علاوہ خود فقہ حنفی کی کتب سے بھی ہم ذکر کر آئے ہیں۔ اس استحباب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس مولانا محمد داؤد غزنوی ؒ کے فتویٰ میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ انہوں نے ۲۹ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۹ھ میں جو فتویٰ صادر فرمایا تھا، جسے انہوں نے اپنے زمانئہ طالب علمی میں اپنے والد ِگرامی مولانا سیّد عبد الجبار غزنوی ؒ سے سُنا تھا، جوُ اس وقتِ تحریر سے بھی دس سال پہلے کی بات ہوگی، اس میں انہوں نے کہا تھا : ’’اگر تعبّد اور خضوع اور خشوع و عاجزی کے خیال سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبُّہ ہوگا، اسلام میں ننگے سر رہنا سوائے احرام کے ، تعبّد یا خضوع کی علامت نہیں ‘‘۔ (۱۹) اور مولانا محمد اسمٰعیل صاحب ؒ نے بخاری شریف سے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی مختلف کپڑوں کے ناموں والا حضرت عمرِ فاروق رضی اﷲ عنہ کا ایک اثر نقل کرکے اس سے یہ بھی نتیجہ اخز کیا ہے : ’’ اگر پورے کپڑے میسّر ہو سکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلّف سے مسکنت (و خشوع) کا اظہار نہیں