کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 24
ہے۔ جسے ہم بعد میں ذکر کریں گے اِن شآء اﷲ۔ یہ تو اس تفصیلی فتویٰ کا اختصار ہے۔ جسے پوری تفصیل مطلوب ہو۔ وہ الاعتصام کا مذکورہ شمارہ یا مولانا علی محمد سعیدی ؒ کے مُرتّب کردہ فتاویٰ علمائے حدیث کی جلد چہارم کا صفحہ ۲۸۶ تا ۲۸۹ دیکھ لے۔ خلاصئہ کلام: اہل حدیث علماء کے تین فتوے ہم نے آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ جن میں سے بعض میں احناف کی طرح ہی بلاوجہ ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور اسے فیشن کے طور پر ایسے کرنے والوں کو اور بھی بُرا سمجھا ہے۔ ہاں بوقتِ ضرورت ایسا کرلینے کے جواز و اباحت سے انہیں بھی انکار نہیں ہے۔ بلکہ صحیح بات پو چھیں تو مولانا سیّد محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ؒ کے دونوں فتووں پر بعض مالا حظات و مؤاخذات ممکن ہیں۔ لیکن ہم اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ان کے مفصّل فتوؤں کے اس نچوڑ سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں، جو کہ دوسرے لفظوں میں مجلّہ اہل حدیث سوہدرہ کا مختصر فتویٰ بن جاتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ننگے سر نماز ہوجاتی ہے، لیکن بطورِ فیشن و لا پرواہی اور تعصّب کی بناء پر اسے مستقل اور ابد الآ بادتک کے لئے عادت بنا لینا صحیح نہیں ہے۔ ننگے سر نماز کے جوازِ و عدم ِجواز کے سلسلہ میں بریلوی ، دیوبندی اور پھر اہل حدیث علماء کی تصریحات و فتاویٰ ذکر کئے جا چکے ہیں۔ جن کا تعلق برِّ صغیر پاک و ہند سے ہے اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عالم ِعرب کے دو ممتاز علماء کے خیالات بھی پیش کر دئیے جائیں۔ فقہ السنّہ سیّد سابق: نہ صرف عرب ممالک بلکہ عالمِ اسلام میں جانی پہچانی کتاب فقہ السنہ کے مؤلّف سیّد سابق نے اپنی اس شہرۂ آفاق کتاب میں ’’کَشْفُ الرَّأسِ فِی الصَّلوٰۃِ‘‘ کے تحت ننگے سر نماز کا حکم بیان کیا ہے، جس کے ضمن میں لکھا ہے کہ ابنِ عساکر نے (تاریخ ِ دمشق میں ) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت بیان کی ہے: {اَنَ النَّبیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَانَ رُبَّمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ فَجَعَلَھَا سُتْرَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ} ’’ بعض دفعہ نبی اکرم ﷺ اپنے سرِ اقدس سے ٹوپی اتار لیتے اور اسے اپنے سامنے بطورِ سُترہ رکھ لیتے