کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 23
جِس میں مختلف کپڑوں کا ذکر آیا ہے، اسے نقل کرکے لکھتے ہیں : ’’اس سے کپڑوں کی قلّت اور عدمِ استطاعت صراحتاً سمجھ میں آتی ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر پورے کپڑے میسّر ہو سکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلّف سے مسکنت کا اظہار نہیں کرنا چاہیئے‘‘۔ اور آگے فتح الباری سے ایک سے زیادہ کپڑوں میں نماز مستحسن ہونے اور صاحب استطاعت کے لئے اس کے واجب و افضل ہونے، اور صرف ایک کپڑے میں نماز کو تنگ حالی پر محمول کرنے کا پتہ دینے والی تصریحات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’غرض کسی حدیث سے بھی بلا عذر ننگے سر نماز کو عادت اختیار کرنا ثابت نہیں۔ محض بے عملی یا بد عملی کی وجہ سے یہ رواج بڑھ رہا ہے، بلکہ جہلاء تو اسے سُنّت سمجھنے لگے ہیں ‘‘ العیاذباﷲ۔ اور نماز کے لئے ایک کی بجائے دو کپڑے پہننے اور ان سے زینت اختیار کرنے والی بعض روایات و آثار کو نقل کرتے ہوئے انہیں مؤیّد ِتزیّن و تجمّل قرار دیا ہے۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں حافظ عینی نے مختلف مذاہب کے تذکرہ میں جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ موصوف نے یہ ذکر کیا ہے : ’’نماز ایک کپڑے میں درست ہے۔ لیکن جب وسعت ہو ،کپڑے میسّر ہوں تو پھر صرف ایک پر اقتصار و اکتفاء مستحسن نہیں ‘‘۔ ایسے ہی المغنی ابنِ قدامہ سے بعض آثار و اقوال نقل کرنے کے بعد موصوف فرماتے ہیں : ’’ان تمام گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلاوجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں۔ یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اور یہ بھی نا مناسب ہے‘‘۔ آگے چل کر اپنے اس جواب یا فتویٰ کے آخر میں مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ؒ لکھتے ہیں : ’’ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل و فراست سے متعلق ہے۔ اگر حِسّ لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے‘‘۔ (۱۶) اس فتویٰ میں موصوف نے ایک اثر کی بات بھی کی ہے جس سے ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا