کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 22
یہ تو ہوا سترِ مغلّظ کے سلسلہ میں جب کہ: ’’ سر چونکہ بالاتفاق اعضائے ستر میں سے نہیں ،اس لئے اگر کسی وقت ننگے سر نماز پڑھی جائے تونمازبالاتفاق ہوگی۔ اس کے لئے نہ بحث کی ضرورت ہے نہ احادیث کی ٹٹول کی ضرورت، جس طرح کوئی پنڈلی، پیٹ، پشت وغیرہ، اعضاء ننگے ہوں تو نماز جائز ہے،سرننگے بھی درست ہے، لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہیئے‘‘۔ امام اگر نماز کے بعد پاؤں آسمان کی طرف کرے یا مقتدی کوئی ایسی حرکت کریں، حدیث میں اس سے رکاوٹ ثابت نہیں ہوگی، لیکن عقلمند ایسا کرنے سے پرہیز کریگا۔ ننگے سر کی عادت بھی قریباً اسی نوعّیت کی ہے۔جواز کے باوجود ایسی عادات عقل و فہم کے خلاف ہیں۔ عقلمند اور متدیّن آدمی کو اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ آنحضرت ﷺ، صحابہ کرام اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری ،جس سے اس ننگے سر نماز کی عادت کا جواز ثابت ہو۔ خصوصاً باجماعت فرائض میں بلکہ عادتِ مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے۔ امام بخاری کے بَابُ وُ جُوْبِ الصَّلوٰۃ ِفِی الثِّیَابِ وَ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالیٰ: {[خُذُ وْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ] وَ مَنْ صَلّٰی مُلْتَحِفًا فیِ ثَوْبٍ وَاحِدٍ الخ} نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’امام بخاری کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ زینت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اعضائِ ستر ڈھانپنے کے علاوہ اچھے کپڑوں میں نماز ادا کی جائے۔ عام ذہن کے لوگوں کو اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جائے تو سر ننگا رہے گا، حالانکہ ایک کپڑے کو اگر پوری طرح لپیٹا جائے تو سر ڈھکا جاسکتا ہے ،اور پھر صحیحین و سُنن کی متعدّد احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی میں سر ننگا رکھنے کا ذکر نہیں، خصوصاً جس میں عادت اور کثرتِ عمل ثابت ہو۔ پھر احادیث میں آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ صورت یا تو صرف اظہارِ جواز کے لئے ہے یا کپڑوں کی کمیابی کی وجہ سے ہے۔ان حالات سے جواز یا ابا حت تو ثابت ہو سکتی ہے سُنّت یا استحباب ظاہر نہیں ہوتا۔ اور حضرت عمرِ فاروق رضی اﷲ عنہ والا اثر جو،