کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 21
{وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلوٰۃَ اِلّا وَھُمْ کُسَالیٰ} (التوبۃ: ۵۴) ’’نماز کو آتے ہیں تو سُست اور کاہل ہوکر۔‘‘ غرض ہر لحاظ سے یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ (۱۵) تو گویا موصوف کے نزدیک اگر چہ سر اعضائے ستر میں سے نہیں کہ اس کا ڈھانپنا واجب ہو البتہ آدابِ نماز کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ڈھانپا جائے۔ اور ننگے سر نماز کوعادت بنا لینا نہ ثابت ہے نہ پسندیدہ۔ موصوف کا فتویٰ تو پورا ہی قابلِ مطالعہ تھا۔ مگر ہم نے خلاصہ پر ہی کفایت کی ہے۔ شائقین اسے ’’الاعتصام‘‘ کے مذکورہ شمارے میں یا پھر فتاویٰ علمائِ حدیث کی جلدچہارم صفحہ ۲۹۰- ۲۹۱ پر دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ؒ: ننگے سر نماز کے سلسلہ میں ہم نے اہلحدیث مؤقف کا تذکرہ شروع کیا ہے۔ جس کے ضمن میں ہم نے دو فتوے بھی ذکر کئے ہیں۔ جب کے دوسرے فتویٰ والا استفتاء ہی ایک معروف اہلِ حدیث عالم شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل (سلفی) آف گوجرانوالہ کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ جس پر موصوف نے بڑا تفصیلی جواب یا فتویٰ صادر کیا تھا۔ جسے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ نے اپنی اسی اشاعت میں نشر کیا تھا۔ جس میں مولانا غزنوی والا قدرے مفصّل مگر اس سے نسبتاً مختصر فتویٰ نشر کیا تھا۔ مولانا محمد اسمٰعیل ؒ کا یہ فتویٰ بھی کافی مفصّل و مدلّل ہے جو کہ درمیانے سائز کی کتاب فتاویٰ علمائے حدیث کے چار صفحات پر مشتمل ہے جس میں پہلے موصوف ؒ نے لکھا ہے کہ اس سوال پر تین وجوہ سے غور کیا جاسکتا ہے۔ ۱۔ مطلق جواز اور اباحت کے لحاظ سے۔ ۲۔ افضلیّت یعنی آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے عام عمل کے لحاظ سے۔ ۳۔ حُرمت اور عدمِ جواز کے لحاظ سے۔ اور پھر نماز میں سترِ مغلّظ (شرمگاہ) کو ڈھانپنے کے دلائل ذکر کئے ہیں اور ذکر کیا ہے کہ اعضائِ ستر کو ویسے بھی ننگا رکھنا درست نہیں۔ نماز میں تو قطعاً حرام و ناجائز ہوگا۔