کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 20
نبی ﷺ یا صحابہ رضی اﷲ عنہم سے ثبوت ملتا ہے؟ اور ننگے سر نماز پڑھنی افضل ہے یا سر ڈھانک کر؟ اور ساتھ ہی دلائل کا مطالبہ کیا گیا تو موصوف ؒ نے ۲۹ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۹ھ کو جو فتویٰ صادر فرمایا جسے انہوں نے اپنے والد بزرگوار کی طرف منسوب کیا ہے۔ وہ لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کی جلد ۱۱ کے شمارہ ۱۸ میں نشر ہوا۔ وہ فتویٰ قدرے طویل ہے اس لئے اس کا حتی الامکان مفید خلاصہ پیش کیے دیتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں : ’’سر اعضائے ستر میں سے نہیں، لیکن نماز میں سر ننگا رکھنے کے مسئلہ کو اس لحاظ سے بلکہ آدابِ نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہیئے اور آگے کندھوں کو ڈھانکنے پر دلالت کرنے والی بخاری و مؤطا امام مالک کی روایات اور مؤطا کی شرح زرقانی (و تمہید) ابن عبد البر، بخاری کی شرح فتح الباری ،ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کی کتاب الاختیارات اور امام ابنِ قدامہ کی المغنی سے تصریحات و اقتباسات نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگر چہ اعضائے ستر میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح سر بھی اگر چہ اعضائِ ستر میں سے نہ سہی لیکن آدابِ نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلاوجہ ننگے سرنماز نہ پڑھی جائے اوراسے ہی زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے۔ اور آگے لکھا ہے: ’’ابتدائے عہدِ اسلام کو چھوڑ کر جب کہ کپڑوں کی قلّت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری ،جس میں بہ صراحت یہ مذکور ہو کہ نبی اکرم ﷺ نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے مسجد میں اور وہ بھی نماز با جماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو ،چہ جائیکہ معمول بنا لیا ہو۔ اس رسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہیئے۔اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ اگر تعبّد اور خضوع اور خشوع و عاجزی کے خیال سے (ننگے سر) پڑھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبّہ ہوگا۔ اسلام میں ننگے سر رہناسوائے احرام کے، تعبّد یا خشوع و خضوع کی علامت نہیں اور اگر کسل اورسُستی کی وجہ سے ہے تو یہ منافقین کی ایک خلقت سے متشابہ ہوگا: