کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 19
جواز اور مساجد میں ان ٹوپیوں کے رکھنے کے عدمِ جواز کی صراحت کی ہے۔ (۱۲)
اس فتویٰ پر ایک دوسرے دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر گکھڑوی کا تعاقب بھی روزنامہ ’’جنگ ۔لاہور‘‘ ۲ نومبر ۱۹۸۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے اپنے تمام پیش رو آئمہ و علماء کے فتاویٰ و تصریحات کے بر عکس عوام الناس کے مروجہ روییّ کے پیش ِنظر اور شائد ان کی تائید حاصل کرنے کے لئے ٹوپی کو لازم قرار دے دیا۔ مگر کوئی واضح دلیل نہیں دے پائے۔ اور کسی بھی بلا دلیل دعویٰ کے باطل ہونے کا اصول معروف ہے (۱۳)
۳۔ اہلحدیث مؤقف: تیسرا مکتبِ فکر اہل الحدیث حضرات کا ہے جن کے نزدیک ننگے سر نماز تو ہوجاتی ہے۔ خصوصاً جب یہ ضرورتاً بھی ہو۔ لیکن محض سُستی و لاپرواہی کی بناء پر ننگے سر نماز پڑھنے کو فیشن ہی بنا لینا ،اسے وہ بھی پسند نہیں کرتے۔ بلکہ تمام احناف کی طرح اس صورت کو وہ بھی غیر مستحسن یا مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔
مجلّئہ اہلحدیث سوہدرہ: اس سلسلہ میں ایک مختصر فتویٰ مجلّہ اہل حدیث سوہدرہ (جو گوجرانوالہ۔ پاکستان کے ایک قریبی چھوٹے سے مگر معروف علمی گاؤں سوہدرہ سے شائع ہوتا تھا) اس کی جلد ۱۵ ، شمارہ ۲۲ میں شائع ہوا تھا۔ جس میں مفتی ٔ مجلّہ نے لکھا تھا:
’’ننگے سر نماز ہو جاتی ہے، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے جواز ملتا ہے مگر بطور فیشن لاپر واہی اور تعصّب کی بناء پر مستقل اور ابد الآباد کے لئے یہ عادت بنا لینا جیسا کہ آجکل دھڑلے سے کیا جا رہا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ نبی ﷺ نے خود یہ عمل نہیں کیا ۔‘‘(۱۴)
مولانا سیّد محمد داؤد غزنوی ؒ: اسی سِلسلہ میں ممتاز اہلحدیث عالم مولانا سیّد محمد داؤد غزنوی ؒسے جب پو چھا گیا کہ بدن پر کپڑے ہوتے ہوئے سر پر سے ٹوپی یا پگڑی اتار کر رکھ دینی، اور کوئی عذر بھی نہ ہو، اور ہمیشہ اسی طرح ہی نماز پڑھنا، اگر چہ فرض با جماعت مسجد میں ہو۔ اس کے لئے شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح