کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 18
ایک فتویٰ: دیوبندی مکتبِ فکر کے ہی ایک عالم مولانا لدھیانوی کا ایک فتویٰ روزنامہ ’’جنگ لاہور‘‘ بابت ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا تھا ۔ جس میں انہوں نے مساجد میں پائی جانے والی چٹائی وغیرہ کی ٹوپیوں کی قباحتوں کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ ننگے سر نماز کے جواز کا فتویٰ جاری کیا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے بقول: پہلی بات: یہ کہ چٹائی کی ٹوپیاں پہننے والوں کی نماز نہیں ہوتی۔ اور ایسی ٹوپیاں مسجد میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ اور آگے اس کی وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے مختصراً ایک وجہ یہ ہے کہ ان ٹوپیوں سے مسجد کا احترام مجروح ہوتا ہے۔ دوسری بات: دوسری وجہ یہ کہ ٹوپیوں پر مَیل کی تہہ اور پسینے کی بدبو خلافِ زینت اور ناگوار ہوتی ہے۔ تیسری بات: ٹوپیوں کو مسجد میں رکھنے کے عدمِ جواز کی ایک اور دلیل موصوف نے یہ بھی ذکر کی ہے کہ ان ٹوپیوں کے مسجد میں رکھنے کی وجہ سے لوگ مسجد کو عبادت گاہ کی بجائے خیراتی اور رفاہی ادارہ سمجھنے لگتے ہیں ۔ جو مسجد کے مقاصد کے خلاف ہے اور اس سے مسجد کی توہین ہوتی ہے۔ چوتھی بات: مفتی صاحب موصوف نے فتویٰ میں احسن الفتاویٰ کے حوالہ سے شرح التنویر کی وہ عبارت بھی نقل کی ہے جو کہ مکروہات الصلوٰۃ کے ضمن میں ہے۔ جس میں کہا گیا ہے: {وَصَلوٰتُہ‘ حَاسراً اَیْ کَاشِفاً رَاْسَہٗ لِلتَّکَا سُلِ ، وَلاَ بَاْسَ بِہٖ لِلتَّذَلُِّ} ’’ سُستی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور انکساری کی نیّت سے ہوتو پھر کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس اقتباس کو نقل کرکے اس کے آخری الفاظ وَلاَ بَاْسَ بَہٖ لِلتَّذَلُّلِ سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس عبارت سے معلوم ہوا کہ بلا تکاسل (و سُستی) برہنہ (یعنی ننگے) سر نماز پڑھنے میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔ یہ ایک دیوبندی عالم اور معروف مفتی کا فتویٰ ہے جس میں انہوں نے عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ ننگے سر نماز کے