کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 17
’’ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے جب کہ اس کے پاس عمامہ بھی موجود ہو اور اس نے سُستی کرتے ہوئے اور عمامہ کو اہمیّت نہ دیتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھی ہو۔ اور اگر وہ خشوع و خضوع کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔‘‘ اور کتاب الذخیرہ میں ایسے ہی لکھا ہے۔ ایسے ہی فقہ حنفی کی معروف کتاب شرح وقایہ میں مکروہاتِ نماز کے ضمن میں لکھا ہے : {وَصَلوٰتُہٗ حَاسِرًا رَاْسَہٗ لِلتَّکَاسُلِ اَوْلِلتَّھَاوُنِ بِہَا لاَ لِلتَّذَلُّلِ} ’’سُستی کی وجہ سے یا عمامہ سے لاپرواہی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا تو مکروہ ہے۔ لیکن تذلّل و انکساری کے لئے ایسا کیا جائے تو پھر مکروہ نہیں ہے۔‘‘ اس شرح وقایہ کے حاشیہ عمدۃ الرعا یہ میں مولانا عبد الحّی حنفی ؒ للتذلّل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : {لاَ لِلتَّذَلُّلِ اَیْ لِقَصْدِ التَّذَلُّلِ وَ اِظْھَارِ الْخُشُوْعِ۔ لاَ لِلتَّذَلُّلِ فَاِنَّ الْخُشُوْعَ فِی الصَّلوٰۃِ اَمْرٌ مُسْتَحْسَنٌ وَھُوَ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَفْعَالِ الْقَلْبِ لٰکِنْ لاَ بَاْسَ بِاِظْھَارِ آثَارِہٖ فِی الظَّاھِرِ} ’’یعنی اگر ننگے سر نماز پڑھنا تذلّل و انکساری کے لئے ہو تو مکروہ نہیں، ان الفاظ میں ’’ تذلّل کے لئے نہیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جب تذلّل اور خشوع کا اظہار کرنا مقصود ہو (تب مکروہ نہیں ) کیونکہ نماز میں خشوع ایک اچھّا فعل ہے۔ یہ خصوع اگر چہ در اصل تو دل کے افعال سے ہے۔ لیکن اس کے آثار و علامات کو ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ ایسے ہی دیوبند مکتبِ فکر کے علماء کی کتب میں سے احسن الفتاویٰ او ر شرح التنویر میں بھی ننگے سر نماز کو جائز و درست قرار دیا گیا ہے۔ جنہیں ہمارے بھائی یا تو پڑھتے نہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں۔ یا پھر تجاہلِ عالرفہ سے کام لیتے ہیں۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ البتہ اپنی ذمّہ داری سے سبکدوش ہونے کے لئے ان کتابوں کا متعلقہ اقتباس اور ایک دیوبندی عالم مولانا لدھیانوی کا فتویٰ بھی آپ کے گوش گذار کئے دیتے ہیں۔