کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 16
تذلّل و انکساری کی نیّت سے سر بر ہنہ رہنا چاہے تو (گری ہوئی ٹوپی) نہ اُٹھانی چاہیئے‘‘۔ بریلوی مکتبِ فکر کی دوسری کتاب ’’عرفانِ شریعت‘‘ حصّہ اوّل مسئلہ ۷ کے تحت لکھا ہے: ’’اگر مقتدی عمامہ باندھے ہوں اور امام کے سر پر عمامہ نہ ہو تو نماز بلا تکلّف درست ہوگی۔‘‘ لیجئے ! بریلوی موقف خود اس مکتبِ فکر کے بانی وسر خیل کے اپنے اقوال و فتاویٰ کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ ان کے علماء کے نزدیک ننگے سر نماز ہو جاتی ہے۔ اور یہ الگ بات ہے کہ سب سے زیادہ اسی مکتبِ فکر کے لوگ ننگے سر نماز پڑھنے والوں پر گرجتے اور برستے ہیں۔ ۲۔ دیوبندی مؤقف: احناف میں بریلوی مکتب فکر کے بعد دوسرا مکتب دیوبندی ہے۔ جب کہ ان کی متداول کتب میں بھی ننگے سر نماز کو جائز لکھّا گیا ہے۔ مثلاً امام طحاوی ؒ کی کتاب معانی الآثار (۱/۲۳۴) میں مذکور ہے : ’’مردوں کے لئے صرف ایک ہی کپڑے میں نماز جائز ہے۔‘‘ اور لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ، ابو یوسفؒ اور امام محمد ؒ کا بھی یہی قول ہے اور ظاہر ہے کہ جب ایک کپڑے میں نماز کو جائز قرار دیا گیا ہے تو یقیناً اس میں سر کو ڈھانپنا شامِل نہیں ہوسکتا۔ جو ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل ہو سکتی ہے۔ فقہ السنّہ میں سیّد سابق نے لکھا ہے : ’’حنفیہ کے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ ننگے سر نماز پڑھنا خشوع کے لئے ہو تو یہ ان کے نزدیک مستحب ہے‘‘ (۱۱) اور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں پانچ سو علماء ِ احناف کی مرتب کی ہوئی کتاب فتاویٰ عالمگیری میں فقہ حنفی کی کتاب ’’الذخیرہ‘‘ سے نقل کرتے ہوئے لکھا گیا ہے: {یُکْرَہُ الصّلوٰۃُ حَاسِرًا رَاْسَہٗ اِذَا کَانَ یَجِدُ الْعِمَامَۃَ وَقَدْ فَعَلَ ذَالِکَ تَکَاسُلاً وَتَہَاوُناً وَلَا بَاْسَ بِہٖ اِذَا فَعَلَہ‘ تَذَلُّلاً وَ خَشُوْعًا بِلْ ھُوَ حَسِنٌ، کَدَافِی لذَّخِیْرَۃِ}