کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 15
ہے۔ کہ انہیں اپنی ’’سخاوت‘‘ کا مرکز بناتے ہوئے ٹوپیاں خرید کر اس میں رکھی جاتی ہیں ۔ جو تھوڑے ہی عرصے میں تیل اور مَیل سے اٹ جاتی ہیں۔ اور جا بجا سے پَھٹ جاتی ہیں۔ مگر مسجد سے ہٹائے جانے کا تصوّربھی نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح مسجد کو بلا وجہ ایک خیراتی ادارے کا سارنگ دے دیا جاتا ہے۔ جو کہ بہر حال اﷲ کے گھروں کے شایانِ شان ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کے مقام اور تقدس کو مجروح کرنے کا ذریعہ ہے۔
ننگے سر نماز کا جواز
فضیلت والی روایات کی استنادی حیثیّت اور ان کے نتائج و اثرات کے بعد اب آئیے ننگے سر نماز کا حکم بھی معلوم کریں کہ آیا اس طرح نماز ہوجاتی ہے یا نہیں ؟
اس سلسلہ میں برّ صغیر میں مسلمانوں کے دو بڑے مکتبِ فکر ہیں، ایک اہلسنّت اور دوسرے اہلحدیث، جب کہ اہلسنّت میں دو بڑی شاخیں ہیں اور وہ دونوں ہی احناف کہلواتی ہیں۔ ان میں ایک ہیں دیوبندی احناف اور دوسرے ہیں بریلوی احناف۔ اس طرح ہمارے سامنے تین بڑے مکتبِ فکر آتے ہیں۔ لہٰذا آئیے ان تینوں کے نزدیک ننگے سر نماز کی شرعی حیثیّت دیکھیں۔ چنانچہ ان تینوں میں سے غالب اکثر یّت بریلوی حضرات کی ہے۔ لہٰذا پہلے بر یلوی مؤقف دیکھیں۔
۱۔ بریلوی مؤ قف: بریلوی موقف کو معلوم کرنے کے لئے جب اس مکتب ِفکر کے بانی مولانا احمد رضا خان کی تصریحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی کتاب ’’احکام ِشریعت‘‘ حصّہ اوّل مسئلہ ۵۴ کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’اگر بنیّت عاجزی ننگے سر (نماز) پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ‘‘ (۱۰)
اسی کتاب ’’ احکامِ شریعت ، حصّہ دوم مسئلہ ۳۹ کے جزء ب میں لکھتے ہیں :
’’اگر نماز کے دوران ٹوپی سر سے گر جائے تو اٹھالینی چاہیئے۔ یہی افضل ہے جب کہ بار بار نہ گرے۔ اور اگر