کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 14
نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بعض بھائیوں نے خصوصاً پاک و ہند میں ٹوپی یا عمامہ کو وہ مقام دے دیا ہے کہ قمیص کا کالر تک اٹھا کر سر پر رکھ لیتے ہیں۔کوئی ننگے سر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھُورا جاتا ہے۔ یا پھر کوئی نہ کوئی ازراہِ کرم کوئی بو سیدہ ٹوپی اس کے سر پر رکھ دیتا ہیں۔ جسے قطعاً زینت کا باعث قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ ہماری مساجد میں دستیاب ہونے والی ٹوپیاں زینت تو کجا اُلٹا بد صورتی و بد ذوقی اور سوئِ منظر کا سبب بنتی ہیں۔
اوّل تو ان روایات کی حیثیّت معلوم ہونے سے پتہ چل گیا کہ ٹوپی یا عمامہ اور پگڑی و دستار کی کوئی فضیلت ثابت نہیں اور اگر نبی اکرم ﷺ کے دستار و عمامہ باندھنے کے عمل سے اس کی فضیلت مان بھی لی جائے تو پھر ضروری ہے کہ دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی نماز کے لئے استعمال کی جائے جسے دَورِ حاضر میں واقعی زینت و عزّت اور رعب و وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور صرف نماز کے لئے ہی نہیں، عام حالات میں اِدھر اُدھر نکلنے یا کسی کے ہاں مہمان جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہو۔
محض سرکو ڈھکنا اور وہ بھی ایسی ٹوپیوں سے ،جنہیں اگر آپ سے کہا جائے کہ سر پر پہن کر بازار کا چکر لگالو یا کِسی عزیز رشتہ دار کے یہاں سے ہو آؤ تو اسے پہن کر جانے میں آپ شرم محسوس کریں۔ تو پھر کیا اﷲ کی ذات اور اس کے گھر ہی (نعوذباﷲ) ایسے غیر اہم مقامات ہیں جس کے یہاں آپ ایسی مانگے کی ٹوپیاں اور وہ بھی ٹوٹی پھوٹی اور میلی کچیلی ‘پہن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اِدھر نماز سے فارغ ہوئے اور ٹوپی اتاری اور صفوں کی آخری دیوار کے پاس پھینک دی یا پھر اسے تہہ کر کے جیب میں محبوس کر دیا۔
یاد رکھیں کہ دستار و عمامہ مسلمان کی شان اور اس کا امتیاز ہے۔ جو نماز کی نسبت نماز سے باہر عام حالات میں زیادہ ضروری ہے۔ تاکہ مسلمان کی پہچان ہو سکے۔ اور وہ دستار و عمامہ جو امتیاز کے طور پر عام حالات میں پہنا جائے وہی نماز میں بھی پہنا جانا چاہیئے۔
اور ان ٹوپیوں کو رواج دینے کے نتیجہ میں ہی اﷲ کے گھروں کو اس طرح بھی ’’غیر اہم‘‘بنایا جاتا