کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 13
کیا گیا ہے اور ضعیف احادیث کو پہچاننے کے قواعد و ذرائع کے بیان پر مبنی اس کتاب میں علّامہ موصوف نے انتہائی تبحّر علمی کا مظاہرہ فرمایا ہے ۔ جو کہ قابل مطالعہ اور چھوٹے سائز کے صرف پونے دوسو صفحات کی کتاب ہے ۔ کتاب کے محقق استاذ محمُود مہدی استنبولی نے علّامہ ابنِ قیم ؒ کے ذکر کردہ ضعیف و موضوع احادیث کی پہچان کے قواعد میں سے ہی ایک یہ بھی لکھا ہے:
{لَا یَصِحُّ فِی الْعِمَامَۃِحَدِیْثٌ وَلَکِنَّ الرَّسُوْلُﷺ کَانَ یَلْبِسُھَا} (۸)
’’عمامہ کی فضیلت کے بارے میں وارد شدہ احادیث میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ البتہ نبی اکرم ﷺ عمامہ باندھا کرتے تھے۔‘‘
اور ان روایات کے موضوع و باطل ہونے میں اس لئے تردّد نہیں رہناچاہئے کہ ان میں عمامہ والی نماز کا ثواب اتنا ہی بتایا گیا ہے جتنا اکیلے نماز پڑھنے والے کی نسبت با جماعت نماز پڑھنے والے کا ثواب ہے۔ جب کہ عمامہ باندھنا اور جماعت میں شامل ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ عمامہ باندھنا زیادہ سے زیادہ مستحب ہے۔ بلکہ راحج تر بات یہ ہے کہ یہ سُننِ عادت میں سے ہے۔سُننِ عبادت میں سے نہیں ( اور نبی اکرم ﷺ کی اتباع کی نیّت سے عادۃً پہننے پر ثواب بھی ہے مگر نماز با جماعت سے اس کا کیا مقابلہ ہے؟) وہ تو کم از کم سنّتِ مؤکّدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ بلکہ بعض اہل علم نے تو جماعت کو نماز کا رکن و شرط بنادیا ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی ،اگر چہ صحیح و راحج تر مسلک یہ ہے کہ جماعت فرض و واجب ہے جسے ترک کرنے سے نماز تو ہو جائے گی ۔ لیکن وہ ترکِ جماعت پر سخت گناہگار بھی ہوگا(جس کی تفصیل ہم اپنی ایک دوسری کتاب میں ذکر کر چکے ہیں ) ۔
ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ شارع حکیم و علیم محض عمامہ باند ھ کر پڑھی گئی نماز کے اجر و ثواب کو جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ کر دے (جیسا کہ ان روایات میں وارد ہوا ہے)۔ اور غالباً حافظ ابنِ حجر ؒ نے اِسی نقطہ کے پیشِ نظر اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ (۹)
ان باطل روایات کے اثرات: ان ضعیف و باطل اور ناقابِل حجّت و اعتبار روایات کا ہی