کتاب: ٹوپی و پگڑی سے یا ننگے سر نماز ؟ - صفحہ 10
{ھَٰذَا حَدِیْثٌ بَاطِلٌ}
’’یہ باطل روایت ہے۔‘‘
اور لسان المیزان (۳/۲۴۴) میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒنے کہا ہے:
{ھَٰذَا حَدِیْثٌمَوْضُوْعٌ}
یہ روایت جعلی و من گھڑت ہے۔
اور آگے حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت کی سند کے راویوں عباس بن کثیر، ابو بشیر بن سیّار، محمد بن مہدی مروزی اور مہدی بن میمون کے غیر معروف و مجہُول ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ حضرت سالم سے روایت کرنے والے راوی مہدی بن میمون وہ بصری مہدی نہیں، جن کی مرویات صحیحین میں ہیں، یہ کوئی دوسرے ہیں۔
اس حدیث کو محدِّثِ عصر علّامہ محمد ناصر الدین الالبانی نے اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ میں نقل کرکے اس پر بالتفصیل کلام کیا ہے جو اس کتاب کی جلد اوّل صفحہ ۱۵۸ تا ۱۶۰ پر دیکھا جا سکتا ہے ۔(۲)
دوسری حدیث: اسی موضوع کی ایک دوسری حدیث بھی ہے ،جس سے عمامہ و دستار یا پگڑی و ٹوپی پہن کر پڑھی جانے والی نماز کی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ وہ حدیث جسے حِلیہء اولیاء میں ابو نعیم نے اور انہی کے طریق سے دیلمی نے الفردوس میں روایت کیا ہے،۔ اس میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
{رَکْعَتَانِ بِعِمَامَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ رَکْعَۃً بِلاَعِمَامَہ} (۳)
’’عمامہ باندھ کر پڑھی گئی دو رکعتیں ،بلا عمامہ پڑھی گئی ستّر رکعتوں سے بہتر ہیں۔‘‘
استنادی حیثیّت: اس روایت کو بھی محدِّثینِ کرام نے من گھڑت کہا ہے ،کونکہ اس کی سند کے ایک راوی طارق بن عبد الرحمن ہیں جسے شرح الجامع الصغیر میں علّامہ مناوی نے ضعیف ثابت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ