کتاب: تحفۃ المتقین - صفحہ 60
دیکھو: جلاء الافہام (ص635) ۔ جب کہ غیر انبیاء کے لیے کبھی کبھار درود پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جب تک کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ جلاء الافہام میں (663-664 پر ) فرماتے ہیں : ’’ اس مسئلہ میں دو ٹوک بات یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں پر صلاۃ [درود] پڑھنا ؛ یا تو آپ کی آل و ازواج اور اولاد پر ہوسکتا ہے یا پھر ان کے علاوہ کسی دوسرے پر۔اگر پہلی صنف مراد ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان پر درود پڑھنا مشروع ہے۔ اور اکیلے بھی پڑھنا جائز ہے۔ اور اگر اس سے مراد دوسری قسم ہو ؛جس میں ملائکہ ؛ اہل طاعت عموماً ان میں داخل ہیں ؛ اورتمام انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ۔ تو پھر بھی ان پر دورد پڑھنا جائز ہے۔ مثلاً یوں کہا جائے: (( اللّٰهم صل على ملائكتك المقربين، وأهل طاعتك أجمعين )) اور اگر کوئی متعین شخص ہو؛ یا متعین گروہ ہو ؛ تو پھران پر درود کو اپنا شعار بنا لینا مکروہ ہے۔اور اگر اس کے حرام ہونے کا کہا جائے تو اس کی کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے۔ اور خصوصی طور پر جب یہ اپنی نشانی بنا لیا جائے۔ اور اس کے مقابل کسی دوسرے پر ایسا کرنے سے منع کیا جائے۔ جو کہ اس سے بھی بہتر ہو۔ جیسا کہ رافضہ حضرت علی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ وہ جب بھی آپ کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں : علیہ الصلاۃ و السلام ۔ اور یہی بات ان حضرات کے متعلق نہیں کہتے جو ان سے بھی افضل ہیں ؛ ایسا کرنا ممنوع ہے۔ جب کہ اسے ایک خاص شعار بنا لیا جائے۔ تو ایسا کرنا حلال نہیں ۔ اس صورت میں اس صلاۃ و سلام کا ترک کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر کبھی کبھار ایسے کر لیا جائے اور اسے اپنا شعارنہ بنایا جائے ؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکواۃ ادا کرنے والے والوں کے لیے درود پڑھا تھا؛ او رایک اور عورت اوراس کے شوہر کے لیے بھی درود پڑھا تھا۔ تو پھر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس تفصیل کی روشنی میں دلائل کا آپس میں اتفاق ہوجاتا ہے۔ اور حق بات کھل کر سامنے آجاتی ہے۔‘‘