کتاب: تحفۃ المتقین - صفحہ 56
آپ نے فرمایا :’’جتنا چاہو لیکن اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو بہتر ہے ۔‘‘
میں نے عرض کیا:’’ تو پھر میں اپنے وظیفے کے پورے وقت میں آپ پر درود پڑھا کروں گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ پھر اس سے تمہاری تمام فکریں دور ہوجائیں گی اور تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘
حسن: رواه الترمذي (2457)، وأحمد (21241-21242)، والحاكم (2/421). وحسّنه أيضا الترمذي.
صحابہ کرام اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی آپ پر درود پڑھا کرتے تھے۔ ان مواقع میں سے :
۱۔ خطبات میں : عبد اللہ بن احمد 837میں نقل کیا ہے؛ منصور بن ابی مزاحم سے روایت ہے؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے خالد الزیات نے حدیث بیان کی؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے عون بن ابی جحیفہ نے حدیث بیان کی ؛ اور کہا: ’’میرے والد حضرت علی کی پولیس میں تھے۔ اوروہ منبر کے نیچے کھڑے ہوتے تھے۔ تو میرے ابا جی نے حدیث بیان کی کہ : آپ منبر پر چڑھے۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا۔ اور فرمایا:
’’ آگاہ رہونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور پھر دوسرے درجہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتے ہیں بھلائی کو رکھ دیتے ہیں ۔‘‘
اس کی سند خالد الزیات کی وجہ سے حسن ہے۔ اس سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ایسے ہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ وغیرہ کے خطبات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام منقول ہے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ جلاء الافہام میں (ص 526) پر فرماتے ہیں : ’’خطبات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑہنا صحابہ کرام کے ہاں بڑا مشہور و معروف معاملہ تھا۔‘‘
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی زیارت کے وقت : امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ بن دینار سے روایت کیا ہے؛وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر