کتاب: تحفۃ المتقین - صفحہ 52
میں نکلا لوگ اپنے قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ یہ اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ یعنی آخری رات جس میں لوگ سو جاتے ہیں اس سے بہتر ہے جس میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ابتدائی حصہ میں کھڑے ہوتے تھے۔ اور آدھی رات ميں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے:
(( اَللَّھُمَّ الْعَنْ کَفَرَۃَ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِکَ وَیُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِكَ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ، وَأَلْقِ فيِ قُلُوبِهُمُ الرُّعـْبَ، وأَلْقِ عَلَيهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ إِلَهَ الحَقِّ،ِ))
’’ اے اللہ ان کافروں پر لعنت کر جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے - اے اللہ اے معبود بر حق! انکے کلمات میں اختلاف ڈال دے اور انکے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپناعذاب اور اپنی مارنازل فرما۔‘‘
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے اورجتنا ہو سکتا مسلمانوں کے لیے دعا اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے۔جب کفار پر لعنت اور نبی پر درود و سلام سے ؛ اور ااہل ایمان مرد و خواتین کے لیے دعا اور اپنے حاجت طلبی سے فارغ ہوتے تو کہتے:
(( اَللَّھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَالیَکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ ربَّنا، وَنَخَافُ عَذَابَکَ الْجِدَّ اِنَّ عَذَابَکَ لِمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ. ))
’’ یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی دوڑتے اور کوشش کرتے ہیں تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں - بے شک تیرا عذاب ان کو ملنے والا ہے جن سے تو دشمنی کر لے۔‘‘
صحيح: رواه ابن خزيمة (1100). ورواه البخاري (2010) الجزء الأول منه إلى قوله: لوگ رات کے ابتدائی حصہ میں کھڑے ہوتے تھے‘‘ تک ہی ہے۔