کتاب: تحفۃ المتقین - صفحہ 430
کرتے ہیں ؛ جس کی وجہ سے انہیں خیالات آتے ہیں ؛ اور تلبیس کا شکار ہوتے ہیں ۔  دوسری حدیث میں ہے: «إذا تغولت الغيلان فنادوا بالأذان»جب جنات آڑے آئیں تو پھر اذان دو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرکے ان کے شر اور برائی کو ختم کرو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث سے مراد ان جنات کے وجود کا انکار نہیں ؛ (انظر: شرح النووي على صحيح مسلم). (37):باب: وہم سے بچنے کے لیے اقدام مریض اور صحت مند جانوروں کے مابین اختلاط سے اجتناب 853۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بیمار جانور کو صحت مند جانوروں کے ساتھ نہ ملایا جائے ۔‘‘  متفق عليه: رواه البخاري في الطب (5771، 5774)، ومسلم في السلام (2221). امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علماء کرام فرماتے ہیں : اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اونٹوں والے کو چاہیے کہ وہ بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں میں نہ لے کر جائے۔ بسا اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ صحت مند اونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشئیت سے بیمار پڑ جائیں ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی کونی سنت ہے۔ تو اس طرح دوسرے اونٹ والے کو اس کے اونٹ بیمار پڑجانے سے ضرر لاحق ہو ۔ اور بسا اوقات اس سے بڑا ضرر بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ اوروہ یہ کہ انسان اس بیماری کے اپنی طبیعت کے اعتبار سے متعدی ہونے کا اعتقاد بنالے اوریوں کفر کا ارتکاب کر بیٹھے۔‘‘ واللہ اعلم ۔  (38): باب: جذامی سے بھاگنے کا بیان 854۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بیماری کا لگ جانا، بدفالی اور ہامہ (کی نحوست) اور محرم کو صفر بنا لینا کوئی چیز نہیں اور جذامی سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ [صحيح: رواه البخاري في الطب (5707).]