کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 96
وَاللّٰہُ قَدْ جَعَلَ الأَیَّامَ دَائِرَۃً فَلَا تَرَی رَاحَۃً تَبْقٰی وَ لَا تَعْباً ’’ اللہ سبحانہ وتعالی نے زمانہ کو سدا گردش میں رکھا ہے، لہٰذا یہاں نہ آرام مستقل رہے گا اور نہ مشقت ۔‘‘ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ وہ بلاد وممالک، وہ عزت وشرف ومنزلت جو ہمارے آباء نے بڑی مشقت سے حاصل کیے تھے ، ان کے بعدنالائق جانشینوں کی راحت پسندی کی وجہ سے وہ عزت وشرف اور وہ منزلت اور جگہ وہ ملک اور شہر ہمارے ہاتھوں میں نہ رہے ، جن کے لیے ان کی جانیں کام آئیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ، جب آنکھوں کی نعمت چھن گئی تو فرمانے لگے: إِنْ یَّأْخُذَ اللّٰہُ مِنْ عَیْنِيْ نُوْرَھُمَا فَفِيْ لِسَانِيْ وَسَمْعِيْ مِنْہُمَا نُوْرٌ قَلْبِيْ ذَکِيٌُ،وَعَقْلِيْ غَیْرَ ذِيْ عِوَجٍ وَفِيْ فَمِّيْ صَارِمٌ کَالْسَّیْفِ مَأْثُوْرٌ ’’ اگر اللہ سبحانہ وتعالی نے میر ی دونوں آنکھوں کانور چھین لیا تو کیا ہوا ، کیونکہ میری زبان اور کانوں میں ان دو نوں کا نورآگیا ہے ؛ میرا دل خوب ہوشیار وبیدار ہے ، اور میری عقل میں کوئی خلل نہیں ، اور میرے منہ میں دو دھاری تلوار جیسا ماثور ذکرہے۔ ‘‘ یہ بھی قدرِ نعمت اور اس پر شکر کا ایک انداز ہے۔ بنگاہِ خرد نگر خلیفہ مروان بن عبد الملک رحمہ اللہ نے حضرت عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ کو ملاقات کے لیے دمشق بلایا۔ عروہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لے گئے۔کچھ دن مروان کے پاس رہے۔ اس