کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 94
﴿يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨٣﴾ (النحل :۸۳) ’’ وہ اللہ کی نعمتوں کو جانتے ہیں ، اور پھر ان کا انکار کرتے ہیں ، ان میں سے اکثر ناشکری کرنے والے ہیں ۔ ‘‘ ان نعمتوں پر غور کرو، آخر یہ کس کی عنایت اور آپ کے پاس کس کی امانت ہیں اور ان کا استعمال کس طرح ہورہا ہے؟ کیا اس امانت میں خیانت تو نہیں ہو رہی ؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴾(الاسراء :۳۶) ’’اور اس بات کے قریب بھی مت جائیں جس کا آپ کو علم نہ ہو ، بے شک کان، آنکھیں ، اور دل ہر ایک اس کے بارے میں جوابدہ ہے۔ ‘‘ ۲۔ فراغتِ وقت :…اللہ سبحانہ وتعالی کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ہے۔اس سے مراد وقت کا وہ حصہ ہے جس کا انسان اپنی مرضی کے مطابق تصرف کامالک ہوتا ہے۔اور وہ اس بات پر قادر ہوتا ہے کہ وہ یہ وقت کہیں بھی لگادے۔اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ انسانوں کے اس فراغتِ وقت سے فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کے فقر، تونگری، علم اور مرتبہ کے لحاظ سے مختلف درجات ہیں ۔ اور ہر کوئی اس خیر سے حسب استطاعت فائدہ اٹھاتاہے۔ اس فراغت سے مقصود ان دنیاوی پریشانیوں اورغیر ضروری مصروفیات سے نجات ہے۔ جن کی وجہ سے انسان آخرت کی یا کسی اہم بڑے کام کی تیاری نہیں کرسکتا۔ اسی لیے بعض صالحین کہتے ہیں : ’’ مشغولیت سے قبل فراغت ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جب انسان اس نعمت کی ناشکری کرتا ہے تووہ اپنے نفس کیلئے شہوات کے دروازے کھول دیتاہے ، اور خواہشات کے پیچھے پڑ جاتا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی اس نعمت کو اس کے دل میں پریشانی کا سبب بنادیتے ہیں ، اور دل کا نور اور طہارت سلب کرلیتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہی نعمت عذاب