کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 93
ایک صاحب بصیرت کے لیے کتنی عام سی بات ہے کہ وہ سوچے ! میں اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوں اور دوسرے آدمی کی ٹانگیں ہی کٹ چکی ہیں ۔ میں اپنے پاؤں پر چل رہا ہوں ، او ردوسرا آدمی پاؤں سے محروم ہے؛ ایک اپنے ہاتھ سے لین دین کررہا ہے ، اور دوسرے کے ہاتھ ہی نہیں ۔ ایک انسان کے قلب ونظر درست ہیں ، وہ اپنی مرضی سے دیکھ اور سوچ سکتاہے ؛ جب کہ کوئی دوسرا نابینااور دل کا مریض ہے ، سوچ وفکر کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ کوئی ایک خوب لمبی تان کر آرام سے سوتا ہے ، کوئی دوسرا نیند کی گولیاں کھاکر بھی اس نعمت سے محروم ہے ؛ اور خودکشی کررہا ہے۔ ایک اپنی مرضی سے دنیا کی ہر نعمت کھا پی سکتا ہے ، جب کہ کوئی دوسرا کروڑوں کا مالک ہے ، مگر چند لقمے ابلی ہوئی دال کے ہی کھا سکتا ہے ، اس کے علاوہ باقی دنیا کی ہر چیز کا اسے پرہیز ہے۔ ہاتھ والے کو اگر یاقوت جڑے ہوئے سونے کے کنگن دے دیے جائیں ، وہ ان کے بدلہ میں اپنے ہاتھ کاٹ کر کبھی بھی نہیں دے سکتا۔ پاؤں والے کو کتنی ہی عمدہ گاڑی پجارو اور لینڈ کروزر کیا جہاز بھی خرید کر دے دیا جائے ، وہ ان کے بدلے میں اپنے پاؤں کاٹ کر کبھی نہیں دے گا۔ دل والا اپنا دل ساری دنیا کے بدلے کبھی فروخت نہیں کرے گا؛ آنکھ والے کو اپنی آنکھ کی قیمت کل کائنات میں نظر نہیں آتی۔ ہیرے اور زمرد کی بالیوں کے بدلے میں کوئی بھی اپنے کان ہر گز نہیں کٹوائے گا۔ آخر یہ نعمتیں کس کی عنایت کردہ ہیں ؟ ﴿وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ‎﴿٢١﴾ (الذاریات: ۲۰-۲۱) ’’ اور زمین میں اس کی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے، اورتمہارے نفسوں میں بھی ، کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘ اپنے نفس اور اہل خانہ، گھر بار، وطن ودیار، اہل وعیال ، اعمال واموال کو آخر کس نے خیر وعافیت سے بھر دیا؟ باقی معاشرہ ، ملک ، اور علاقہ کو امن وامان سے نوازنے والا کون ہے ؟ رنگ برنگ صبح وشام کی نعمتیں کس کی عنایت ہیں ؟فرمایا: