کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 92
ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی نعمتوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ: اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ)) [1] ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی بابت بہت سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ، صحت اور فراغت۔ ‘‘ اس حدیث شریف میں ہمارے لیے تین باتیں انتہائی سبق آموز ہیں : ۱۔ صحت :… اللہ کی بہت بڑی نعمت وعطا اور انسانی طاقت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔جو کام تندرست آدمی کرسکتا ہے ، مریض سے ان کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ خواہ یہ کام دنیاوی ہوں ، یا دینی۔ صحت وقوت کو کمال جوانی کے دنوں میں حاصل ہوتا ہے۔ بدن میں صحت وعافیت ہو تو وطن میں آزادی و راحت ، غذا ولباس ، پانی اور ہوا ، دنیا کی ہر نعمت ؛جو بھی انسان کے پاس موجود ہے، اس سے استفادہ کرسکتا ہے ؛ اور اگر صحت و عافیت نہیں تو تخت پر بیٹھا ہوا بادشاہ جسم کے اس قید خانے سے پناہ مانگتا ہے، اور روح کو آزادی ملنے کی دعائیں کرتا ہے ، مگرعافیت و سلامتی کی اس نعمت کا شعور اور احساس بہت کم لوگوں کو ہے: ﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان:۲۰) ’’ اس نے تم کو اپنی ظاہری اور پوشیدہ نعمتیں پوری دے رکھی ہیں ۔ ‘‘ لب ولسان، شعور وجدان؛ سوچ وفکر ، قلب ونظر؛ روح و روحانیت ، انس و انسانیت ؛ دوست ویار ، مونس وغم خوار ؛ اور کتنی ہی نعمتیں ہیں ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴾(الرحمن: ۱۳) ’’سو تم اپنے پروردگار کی کو ن کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
[1] صحیح البخاری؛کتاب الرقاق ؛ باب : لا عیش إلا عیش الآخرۃ؛ حدیث : ۶۰۵۷۔المستدرک علی الصحیحین للحاکم ؛ کتاب الرقاق ؛ حدیث : ۷۹۱۶۔سنن ابن ماجہ ؛ کتاب الزہد؛ باب الحکمۃ ؛ حدیث :۴۱۶۷۔