کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 88
الصَّلَاۃِ ؛ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ، اَلْصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘جس کے جواب میں ایک مومن اور شاکر انسان انتہائی متواضع حالت میں رب کو یاد کرتے ہوئے اٹھتااور اس کی عبادت بجالاتا ہے : اک ولولۂ شوق ہے ، ایک نغمۂ ناہید یہ کون میرے کان میں رس گھول رہا ہے ایسے ہی جب دوپہر کو سورج ڈھل جاتا ہے ،اور لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں ، اور عصر کے وقت جب سورج چھپنے لگتا ہے، اور کاروبار اپنے عروج پرہوتا ہے، اور سرِ شام جب سورج غائب ہوجائے،اور اس کے بعد جب شفق کی سرخی کے ساتھ ساتھ آج کا دن ختم ہوجائے۔ یہی مبارک اذان ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے، نفوس قدسیہرواں دواں اپنے رب کے سامنے حاضر ہوتے ہیں ؛ اس طرح مومن کا دن جو اللہ کی بندگی سے شروع ہوا تھا، اللہ کی بندگی پر ختم ہوگیا۔ مومن کا موقف جو مومن وقت کی قیمت جانتا ہے وہ یہ بات بھی جانتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک مقصد کے لیے بھیجاہے؛زندگی اور موت کو پیدا کرنا ، اور اس کا درمیانی عرصہ اس دنیا میں بھیجنا، یہ سراسر حکمت ہی حکمت ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ‎﴿٢﴾ (الملک:۲) ’’وہ اللہ جس نے زندگی اورموت کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، اور وہ غالب بخشنے والا ہے۔ ‘‘ فراغت اللہ کی ایک نعمت ہے جسے اس کی رضامندی کے امورمیں صرف کرنا چاہیے؛ فرمان الٰہی ہے :