کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 86
’’اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے یہ (کارخانہ) اس زبردست اورعلم والے (خدا ) کا باندھا ہوا ہے۔اور چاند کی ہم نے (اٹھائیس) منزلیں مقرر کردیں ہیں یہاں تک کہ (اخیر منزل میں ) پھر پرانی (سوکھی) ٹہنی کی طرح (باریک ) رہ جلتا ہے ۔نہ تو سورج سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند کو پکڑ پائے (دونوں ایک منزل میں آجائیں )اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے (کہ وقت پر دن نہ نکلے رات ہی رہے )اور یہ سب ایک گھیرے میں تیر رہے ہیں ۔‘‘ مہینے اورسال اسی سورج اور چاند کی گردش میں تمام ہورہے ہیں ۔کوئی سورج کی گردش سے اپنے ماہ و سال کے حساب سے منسلک کیے ہوئے ہے تو کوئی چاند کی حرکت سے۔ مگر دن اوررات کا اس طرح ایک نظام کی پابندی کے ساتھ بدلنا اپنے اندر کئی ایک راز لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نظام کی اہمیت کے متعلق فرماتے ہیں : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرہ :۱۸۹) ’’(اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم !ـ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں ) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔‘‘ امام طبری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ یہ تمہارے لیے اور دوسروں کے لیے ان کی زندگیوں میں مقررہ اوقات ہیں ۔ جس کے کم اور زیادہ ہونے کا تم دھیان رکھتے ہو۔ یہ اوقات ہیں جس میں تمہارے قرض کی مدت ، کرایہ داری کی مدت ،اور تمہاری عورتوں کی عدت پوری ہوتی ہے۔ یہ تمہارے روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا وقت ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے مقررہ اوقات بنائے ہیں ۔ اورایسے ہی یہ حج کے لیے