کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 83
اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ پر مشرکین کا عمل بیان کرتے ہوئے فرمایاہے : ﴿وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ﴾(التوبہ:۹۸) ’’ وہ آپ لوگوں پر بری گردش کے منتظر ہیں ، ان ہی پر ہو بری گردش۔ ‘‘ لیکن خوشی اور غمی کسی بھی چیز کو دوام اور بقا حاصل نہیں ۔ ہر ایک چیز وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہے؛دوسرے الفاظ میں ان میں سے ہر شے کی ایک عمر ہے ، اور اس کا وقت محدود ہے ۔ اگر آج غم ہے تو کل خوشی ہوگی؛ اور اگر آج خوشی ہے تو کل تک اسے بھی زوال آسکتا ہے ؛ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ‎﴿٥﴾‏ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ‎﴿٦﴾ (الم نشرح ۵،۶) ’’سو بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ، اور بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ انسان جس راہ میں تکالیف برداشت کرتا ہے اسی راہ میں اسے آسانیاں بھی ملتی ہیں ۔ انسان کو اس پر پریشان ہوکر اپنے عزائم سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔حالات سے عاجز آکر اسے جدو جہد ترک نہیں کرنی چاہیے؛کیونکہ یہی نشان ِ منزل ہے۔ سونا آگ میں جل کر کندن بنتا ہے ۔ دانہ خاک میں مل کر گل ِ گلزار ہوتا ۔ انسان آزمائش کی چکیوں میں پس کر ہی مردِ میدان بنتا ہے ۔ شاعر کہتاہے : نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے محمد بن حنیفہ کو مکہ مکرمہ جیل عارم میں بند کردیا ، انہوں نے اپنی قید پر سوز میں ڈوبے ہوئے یہ شعر کہے: وَمَا رَوْنَقُ الْدُّنْیَا بِبَاقٍ لِأَہْلِہَا وَمَا شِدَّۃُ الْدُّنْیَا بِضَرْبٍ لاَزِمٍ