کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 79
کے جسم میں عافیت ہو ،اوراس کے پاس اس دن کے لیے غذا ہو،گویا کہ اس کے لیے تمام دنیا کی نعمتوں کوسمیٹ دیا گیا ہو۔‘‘[1] ۴… قیمتی سرمایہ : انسان کی ملکیت میں سب سے قیمتی اور نفیس ترین چیز وقت ہے۔ اس کینزاکت واہمیت اور قدرو قیمت کا احساس اس بات سے ممکن ہے کہ ہر عمل کے کرنے کے لیے وقت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ حقیقت میں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اشخاص اور جماعتوں کا سرمایہ وقت ہے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :( اے ابن آدم! تو ایام کا مجموعہ ہی تو ہے ، جب ایک دن گزرتا ہے ، تیرا کچھ حصہ ختم ہوجاتا ہے ۔) انسان پر ایسا دور ضرور آئے گا جب اسے وقت کی قدر اور اعمال کی قیمت کا احساس ہوگا۔ اس کو اللہ د نے قرآن میں دو مقامات پر ذکر کیا ہے ؛ مگر اس وقت کا یہ احساس اور شعور ، اور اس عظیم تر نقصان پرنادم ہوناانسان کو کچھ فائدہ نہ دے گا ، اور نہ کسی چیز کا ازالہ ممکن ہوگا۔ بقول شاعر : ریاض عالمِ ہستی پہ اعتبار نہ کر کہ مستعار ہے یہ دور گل ، رہے نہ رہے پہلا مقام: …ملک الموت حاضر ہونے کا وقت ہے ، جب انسان اس دنیا سے کٹ کر آخرت کی دہلیز پر پہنچ جائے ، اس وقت تمنا کرے گا، اے کاش ! اسے تھوڑی سی مہلت مزید مل جاتی ، تاکہ وہ عمر گذشتہ کی کوتاہیوں کا ازالہ کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿١٠﴾ (المنافقون ۱۰)
[1] ترمذی نے اسے حدیث نمبر ۲۳۴۶ کے تحت روایت کیااور اسے غریب کہا؛ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔