کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 77
اکبر الٰہ آبادی نے اسی حقیقت کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں : بہارِ عمر جب آخر ہوئی واپس نہیں جاتی درخت اچھے کہ پھلتے ہیں نئے سرے سے جواں ہوکر ضعیفی زور پر آئی، ہوئے بے دست وپا اکبرؔ کیا بچوں سے بدتر ہم کو پیری نے جواں ہوکر آپ کا دن صرف آج کا ہے ، جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اب ماضی کے واقعات کویاد کرکے ان پر آنسو بہانا حماقت اور جنون کی علامت ہے اور موجودہ زندگی کے لمحات کو تلخ بنانا ہے۔ اہل عقل کے ہاں ماضی کی فائل بند کردی جاتی ہے ، اسے بیان نہیں کیا جاتا۔ اسے بالکل ہی زنجیروں میں جکڑ کر طاقِ نسیان کے کسی اندھیر خانے میں رکھ دینا چاہیے ، جہاں سے نہ یہ باہر آنے کی جرأت کرسکے ، اور نہ اس پر حاضر اور مستقبل کی کوئی کرن پڑے۔ ماضی کے قصے یاد کرنا ، اور بند فائلیں پڑھنا وقت کا ضیاع اور نقصان ہے: ﴿تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ﴾’’وہ ایک زمانہ تھا جو گزرگیا ؛ آٹے کو پیسنا حماقت ہے ، اور مردوں کی قبریں اکھیڑنا ذلالت اور رسوائی ہے۔ ماضی کے قصے اگر یاد کیے جائیں تو درس وعبرت کے لیے ؛نہ کہ پدرم سلطان بود کی خاطر اور نہ ہی فقط اشک ِندامت بہانے کے لیے۔کیونکہ جو وقت گزر گیا ہے ، وہ ہر گز لوٹنے والا نہیں ، اور جو گزر گیا سو گزر گیا؛اس پر ٹسوے بہانا بیکار ہے؛ بقول شاعر : دنیا ہم نے سرائے فانی دیکھی ہر چیز ہم نے یہاں آنی جانی دیکھی جو آکے نہ جائے وہ بڑہاپا دیکھا جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی کسی بزرگ کا کہنا ہے: ’’ وقت کی قدر کرو، اس لیے کہ گزرا ہوا وقت لحد میں پڑے ہوئے ایک مردے