کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 76
’’ کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو، ہنستے ہواور روتے نہیں ، اور تم اس سے بالکل ہی غافل ہو۔‘‘ بس یہی انجام کار حیات فانی کا ہے ، اسے کبھی بھی دوام اور بقا حاصل نہیں ہے: لرزتا ہے مرا دل زحمت ِ مہرِ درخشاں پر میں ہوں وہ قطرہء شبنم کہ ہوخارِ بیاباں پر بقول نواب صفدر علی خان صفدر: گلزارِ جہاں کا تماشا دیکھوں اشکِ شبنم کہ گل کو ہنستا دیکھوں مثلِ گل رعنا ہیں نظر میں شب و روز دو روز کی ہے بہار کیا کیا دیکھوں ۳… گیازمانہ ہاتھ نہ آئے : وقت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ گزرجاتاہے ؛ تو کبھی واپس نہیں آتا، اور نہ اس کامتبادل تلاش کرنا ممکن ہے۔ پس ہر گزرنے والا دن، گھنٹہ، اور لمحہ کسی بھی طرح یہ دنیا کی کسی طاقت سے ممکن نہیں ہے کہ اسے واپس لایا جائے۔ اور نہ اس کابدل و عوض کوئی اور کام ہوسکتا ہے۔ اس لیے دیکھتے ہیں کہ شاعر اور ادیب لوگ جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ اے کاش جوانی کے دن دوبارہ مل جائیں ۔ شاعر کہتا ہے: لَیْتَ الشَّبَابَ یَعُوْدُ یَوْماً فَأُخْبِرُہٗ بِمَا فَعَلَ الْمَشِیْبُ ’’ کاش! کسی ایک دن جوانی واپس آتی ، میں اسے بتاتا کہ بڑھاپے نے کیا سلوک کیا ہے۔ ‘‘