کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 75
اس سے تجاوز کریں گے۔‘‘
اس اتنی سی کم عمر میں اتنی بڑی منزل پانی ہے اور منزل ہے : دنیا اور آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی جنت۔ کیا یہ منزل ایسے غفلت میں مل جائے گی؟
منزل ہے ابھی دور تیز چلو دوستو
پھر کیا کریں گے جو راہ میں رات ہوجائے گی
نوح علیہ السلام کا قصہ : … اس امت سے قبل معاملہ اتنی کم عمری کا نہ تھا۔ بلکہ کوئی قوم اتنا عرصہ زندہ رہتی کہ اس کے بنائے ہوئے پختہ مکان تباہ ہوجاتے ، مگر وہ لوگ زندہ رہتے ، اور اس عمر کو پھر بھی کم سمجھتے تھے۔ آخر کار انہوں نے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنانا شروع کیے جو کہ زیادہ پائیدار تھے۔ مدائن صالح ان ہی لوگوں کی یاد گار ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے لمبی عمروں سے نوازا تھا۔ ایسے ہی ایک قصہ سب سے طویل عمر پانے والے نبی نوح علیہ السلام کے متعلق ہے۔
کہتے ہیں : ’’ ہزار برس زندہ رہنے کے بعد ان کے پاس ملک الموت آئے ، اور روح قبض کرنے سے پہلے پوچھا : دنیا کو کیسا پایا ؟ نوح علیہ السلام نے کہا: دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کے دو دروازے ہیں ، ایک دروازے سے داخل ہوا، اور دوسرے سے نکل گیا۔‘‘[1]
بقول شاعر :
شبِ وصال بہت کم ہے ، آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری عمریں کم ہونے کے باوجود اعمال کے لیے اپنے دامن کو بالکل سکیڑے ہوئے ہیں ؛ لیکن ہم اس سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ایک قصہ سمجھ کر ہی پڑھ سن کر گزاردیتے ہیں ، کبھی اس پر درد ِ دل سے توجہ نہیں دیتے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿٥٩﴾ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ﴿٦٠﴾ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ ﴿٦١﴾ (النجم۵۹۔۶۱)
[1] الوقت في حیاۃ المسلم للقرضاوی۔ ص ۱۱۔