کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 74
مگر پھر بھی چل رہے ہیں ۔ اور آپ کی یہ حرکت اس کشتی کی حرکت کی طرح ہے جس میں لوگ بیٹھے ہوتے ہیں ، مگر دل فضاؤں میں پرواز کر رہے ہوتے ہیں ۔‘‘ انسان جب روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوگا، وہ اپنے اعمال میں کمی اور اس دن کی شدت کی وجہ سے دنیا کی زندگی کو چند لمحات شمار کرے گا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا ‎﴿٤٦﴾‏ (النازعات :۴۶) ’’وہ جس دن اسے دیکھ لیں گے ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ دنیا میں دن کا اول حصہ یا آخری حصہ ہی رہے ہیں ۔‘‘ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللّٰهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ‎﴿٤٥﴾ (یونس :۴۵) ’’ اور ان کو جس دن ا للہ اپنے حضور میں جمع کرے گا،( تو ان کو ایسے محسوس ہوگا) گویا کہ وہ (دنیا میں )سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں ،اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں ۔‘‘ ۲… تنگیٔ داماں : کوئی انسان خواہ کتنا بھی کیوں نہ جی لے ، یہ وقت پھر بھی اس کے لیے بہت کم ہے۔ اور خاص کر جب کہ اس امت کی عمریں ہی اتنی مختصر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَعْمَارُ أُمَّتِيْ مَا بَیْنَ السِّتِّیْنَ إِلَی السَّبْعِیْنَ ، وَأَقَلُہُمْ مَنْ یُّجَوِزُ ذَلِکَ)) [1] ’’میری امت کی عمریں ساٹھ سال سے ستر سال کے درمیان ہیں ، بہت کم لوگ
[1] ترمذی ،باب: ماجاء في فناء أعمار ہذہ الأمۃ مابین الستین إلی السبعین ؛ح: ۲۳۳۱۔ ابن ماجۃ باب الأمل و الأجل ؛ برقم ۴۲۳۶۔ صححہ البانی۔