کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 61
سے ایک حدیث نقل کی ہے ، جو کہ سیّدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفہ میں ہے :
’’ عقل مند کو چاہیے - اگر وہ عقلی اعتبار سے مغلوب نہ ہو - کہ اس کا وقت چار گھڑیوں میں بٹا ہوا ہو، ایک گھڑی جس میں وہ اپنے رب سے سرگوشیاں کرے ؛ ایک گھڑی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے ؛ اور ایک گھڑی میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور وفکر کرے؛ اور ایک گھڑی اپنے نفس کے لیے خاص کرے ، جس میں وہ اپنی حاجات: کھانا پینا، اور دیگر امور کو بجا لائے۔ ‘‘[1]
نعمت ِوقت :
وقت اللہ تعالیٰ کی ان بیش بہا نعمتوں میں سے ایک ہے جس کی قیمت کا اندازہ لگانے سے اہل عقل ودانش آج تک قاصر رہے ، اور نہ کوئی ایسا پیمانہ دریافت ہوا جو وقت کی قیمت بتاسکے۔ بس اتنا بطور مثال کہہ سکتے ہیں کہ : ’’ جو چیز اورجوشخص جتنا بڑا اور قیمتی ہے ، اس کے پیچھے وقت کی قیمت کار فرما ہے ، ورنہ اس سب کی حقیقت لا یعنی ہے۔ ‘‘
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ میں صوفیا کے ساتھ رہا ہوں ۔ اور ان کی دو ہی باتوں سے فائدہ اٹھایاہے۔ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ: ’’ وقت تلوار ہے ؛ یا تو تُو اسے کاٹ دے۔ یا وہ تجھے کاٹ دے گی۔ اوراپنے نفس کو حق میں مشغول کر ،ورنہ وہ تجھے باطل میں مشغول کردے گا۔ ‘‘
حضرت علامہ ابن قیم رحمہ اللہ یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’ یہ دو نوں باتیں کس قدر کار آمد او رجامع ہیں ۔ اور کہنے والے کی بلند ہمتی اور بیدار مغزی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور اس موضوع کی اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ جیسے بزرگ لوگ ایسے لوگوں کی شان میں رطب اللسان ہیں
[1] صحیح ابن حبان ؛کتاب البر والإحسان؛ باب ما جاء فی الطاعات وثوابہا ؛ ذکر الاستحباب للمرء أن یکون لہ من کل خیر حظ رجاء؛ ح:۳۶۲۔امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔