کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 54
اور پست ہمتی؛ منفی سر گرمیوں ،لا ابالی پن اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیاہے۔ اپنی جوابدہی کا احساس وشعور ختم ، اور واجبات کی ادائیگی میں غیر سنجیدگی، اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا برتاؤ؛ آخر یہ سب کچھ کب تک رہے گا؟کیا اس پر کبھی احساس ِ ندامت بھی ممکن ہے ، یا پھر ایسے ہی بقیہ زندگی کے لمحات بھی اسی روگ کی نذر ہوجائیں گے۔ ضرورتِ بیداری ’’زندگی ایک رویہ سڑک ہے جہاں سے آپ پیچھے مڑ کر دیکھ تو سکتے ہیں مگر پیچھے پلٹ نہیں سکتے ؛ پھر اپنی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ ہر لمحہء حیات کا ایک مناسب اور دلربا مصرف ہونا چاہیے جس کی خوشی ہمارے آج میں بھی ہو اور ہمارے آنے والے کل میں بھی ۔‘‘ دراوی۔ اس وقت معاشرہ کے اہل ِ علم ، صاحب ِ فراست وبصیرت اور لکھے پڑہے ذمہ دار طبقہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ عوام اور خاص کر نوجوان طبقہ کو کسی طرح اس بات کا احساس دلائیں کہ اللہ تعالی نے انہیں ایسے ہی بیکار اور فضول نہیں پیدا کیا ، بلکہ ان کے اندر بے شمار پوشیدہ صلاحیتیں ودیعت کر رکھی ہیں ،جن سے اگر استفادہ نہ کیا گیا تو انہیں زنگ لگ جائے گا، اور یہ سب کچھ بیکار ہو کر رہ جائے گا۔ جیسے اگر چائے میں شکر ڈال دی جائے تو اس وقت تک اس کا لطف نہیں اٹھایا جاسکتا جب تک اسے چمچ یا کسی چیز سے حرکت دے کر حل نہ کرلیا جائے۔ ایسے ہی ان خفیہ صلاحیتوں کو اگر یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو زندگی کے خاتمہ کے ساتھ یہ بھی ختم ہوجائیں گی۔البتہ ذرا سی حرکت سے برکت کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تخلیقی حکمت وبرکت اوراس کے فضل کے نظارے کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ کہ ایمان کی دولت کے بعد یہ اوقات(زندگی کی چند گھڑیاں ) ہمارے پاس اللہ کی سب سے بڑی نعمت اور امانت ہیں ، اور روزِ قیامت ہم سے ضرور اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ سو کامیاب ہے وہ انسان جس نے اس میں حسن تصرف سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی