کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 53
کو نفع پہنچانے والے بن جائیے ۔‘‘
سرمایہ ٔ حیات
اس دنیا کی چار روزہ زندگی میں انسان کا سرمایہ یہ مختصر سا وقت ، کچھ محدود سانسیں اور گنتی کے چند ایک دن ہیں ۔ جس نے ان لمحات اور گھڑیوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں لگادیا،اس کے لیے خوشخبری اور مبارک ہو۔ اور جس نے وقت میں افراط و تفریط سے کام لیتے ہوئے اسے ضائع کردیا ، حقیقت میں اس نے اپنی زندگی کی سنہری گھڑیاں اورایسا سرمایہ ضائع کردیا ہے جو کبھی واپس آنے والا نہیں ۔
اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے ایسے کام کرنا چاہیے تھا گویا کہ یہی لمحات حیات جو ہمیں میسر ہیں ، بس یہی ہیں ، ان کے بعد کوئی اور وقت نہیں ملے گا، شاعر کہتا ہے :
اِعْمَلْ لِدُنْیَاکَ کَأَنَّکَ تَعِیْشُ أَبَداً
وَاعْمَلْ لِآَخِرَتِکَ کَأَنَّکَ تَمُوْتُ غَداً
’’ اپنی دنیا کے لیے ایسے کام کرو گویا کہ تم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے ، اور اپنی آخرت کے لیے ایسے کرو گویا کہ کل ہی مرجانا ہے ۔‘‘
اس کو اُردو کے شاعر نے یوں قالب میں ڈھالا ہے :
دنیا دنی کو نقش فانی سمجھو
رودادِ جہاں کو ایک کہانی سمجھو
پر کرو جب آغاز کوئی کام بڑا
تو ہرسانس کو عمر جاودانی سمجھو
کتنے ہی انسان اپنے وجودکو ایک بیکاراور لا یعنی چیز سمجھتے ہیں ،اور حقیقت میں ان کا وجود کثرت فراغت میں غیرسنجیدہ اور بد اعمال کے باعث ایسا بن گیاہے ، جس کا نہ وہ اپنے نفس کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ معاشرے کو۔ ایمان ، اخلاق اوراعمال کی کمزوری، نا امیدی