کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 50
ضَرَّائُ صَبَرَ ،فَکَانَ خَیْراً لَّہُ )) [1] ’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے ، اس کا تمام کام بھلائی کا ہے ، اور یہ مومن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہے۔اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو وہ [اللہ کا]شکر ادا کرتا ہے ، یہ اس کے لیے بہتر ہے ۔ اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، تو اس پر وہ صبر کرتا ہے ، یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ ‘‘ بس اس خیر پر شکر کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ ہم جس نعمت سے استفادہ کررہے ہیں ، لوگوں کو بھی اس نعمت کی قدرو قیمت بتائیں ، اور اس سے استفادہ کرنے اور پھر اس پر شکر کرنے کی تعلیم و ترغیب دیں ؛ یقیناً یہ کوشش ذریعہ نجات بن سکتی ہے۔ مومن کا نفس، وقت اور زندگی سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہی وقف ہے۔ پھر مسلمان بابرکت کیوں نہ ہو، جب وہ ہے ہی اللہ کے لیے ؟ سوبندگی کا حقیقی لطف اسی میں ہے کہ انسان خود کو اللہ کیلئے وقف کردے۔اس کے شب و روز، اوڑھنا اور بچھونااللہ کی رضامندی میں گزرے۔ یہ چند صفحات لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کے ہر میدان میں بندگی کی صحیح حلاوت اور چاشنی کیسے حاصل کرسکتا ہے؟ اللہ د فرماتے ہیں : ﴿لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ‎﴿١٦٣﴾ (الانعام :۱۶۳) ’’آپ فرمادیں : میری نماز اور میری قربانی، میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘ کیسے مومن کا وقت مرتے دم تک اللہ کی عبادت سے معمور گزرے ؟ اللہد فرماتے ہیں : ﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ‎﴿٩٩﴾ (الحجر:۹۹) ’’ اور اپنے رب کی بندگی کر یہاں تک کہ تجھے موت آجائے۔ ‘‘ مسلمان کیسے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے ؟ کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
[1] مسلم ؛ کتاب الزہد والرقائق؛ باب المؤمن أمرہ کلہ خیر؛ حدیث ۵۴۲۸۔