کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 45
’’تم جس کی چاہو اولاد بن جاؤ ، لیکن ادب حاصل کرو، تمہیں اس کے اچھے اوصاف نسب سے بے نیاز کر دیں گے۔ بے شک جواں مرد وہ ہے جو خود کو پیش کرے اور کہے : میں یہ ہوں ؛ جواں مرد وہ نہیں ہے جو کہے میرے باپ دادا ایسے تھے۔ ‘‘ ایک اور شاعر کہتا ہے : لَئِنْ فَخَرْتَ بِآَبَائٍ ذَوِيْ حَسَبٍ لَّقَدْ صَدَقْتَ، وَلٰکِنْ بِئْسَ مَا وَلَدُوا ’’ اگر تم اپنے حسب ونسب والے باپ دادا پر فخر کرتے ہو تو سچ کہتے ہو، مگر انہوں نے بہت بری اولادکو جنم دیا ہے۔‘‘ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تھے وہ آبا تو تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو؟ ۲۔ دوسری قسم : وہ لوگ ہیں جو نہ تو ماضی پیش کرسکتے ہیں ، اور نہ حاضر میں ان کا کوئی خاص کارنامہ یا منصوبہ بندی ہے۔ اگر کوئی عمل ہے بھی؛ تو سوائے غلطی اور بدی کے کچھ بھی نہیں ، جس کے اثرات کو ختم کرنے سے غافل ہیں ۔ مگراچھے مستقبل کے لیے بڑی بڑی امیدیں رکھتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے عملی زندگی میں ان کی کوئی منصوبہ بندی ، یا کوئی جدوجہد یا کوشش نہیں ہے۔ یہی وہ لوگ جن کی خواہشات کو ہم سپنوں کے محل ، خیالی پلاؤ یا کسی بھی دیگر مترادف لفظ سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّكُم بِاللّٰهِ الْغَرُورُ ‎﴿١٤﴾‏ الحدید ’’ مگر تم نے خود کو آزمائش میں ڈالا ، اور انتظار میں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہے ، اور تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں رکھا؛ یہاں تک کہ اللہ کا