کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 44
پہنچاتے ہیں (یعنی صغیرہ گناہ) تو خدا کو یاد کر کے اس سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور خدا کے سوا بخشنے والا اور کون ہے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کے ہٹ نہیں کرتے۔‘‘
وقت کی ایک اور تقسیم ایسے بھی کی جاسکتی ہے کہ مختلف کمیوں کوتاہیوں اورافراط وتفریط کے با وجود زمانے یا وقت کیساتھ اپنے تعلق کے اعتبار سے لوگ تین قسم کے ہیں :
۱۔ وہ لوگ جو ماضی کے ہی بندے بنے بیٹھے ہیں ، اور جن کو اپنے باپ دادا کے کارناموں پر بڑا فخر ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ابھی تک ماضی ہی میں ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کونہ کچھ خبر ہے ،اور نہ ان کی کوئی جدوجہد اور کوشش ہے کہ جس کی وجہ سے ان کے روشن مستقبل کے امکانات ہوں ۔بلکہ وہ اپنے باپ دادا کے کارناموں اور یادوں کے ذکر کے ساتھ جی رہے ہیں ۔ اس میں کوئی اپنی طرف سے اضافہ نہیں کرپاتے ؛ اور نہ آج تک کوئی نئی چیز سامنے لاسکے۔ شاعر مشرق ، علامہ اقبال فرماتے ہیں :
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جن میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں گے صنم پتھر کے
ایسے ہی لوگوں کو شاعر نے یوں مخاطب کیاہے :
کُنِ ابْنَ مَنْ شِئْتَ وَاکْتَسِبْ أَدَباً
یُغْنِیْکَ مَحْمُوْدُہٗ عَنِ النَّسَبِ
إِنَّ الْفَتٰی مَنْ یَّقُوْلُ ھٰا أَنَا ذَا
لَیْسَ الْفَتٰی مَنْ یَّقُوْلُ :کَانَ أَبِيْ