کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 416
’’دنیا اور اس کے متاع پر غم نہ کر، بے شک موت ہمیں بھی اور اس کو بھی فنا کردے گی۔ اس دار بقا کے لیے عمل کر جس کا پہریدار رضوان ہے۔ اس میں پڑوس احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ، اور اس گھر کا بانی ربّ رحمان ہے۔ ‘‘
ایک اور شاعر نے اسے بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ، وہ کہتا ہے :
قَدْ نَادَتِ الدُّنْیَا عَلَی نَفْسِھَا
لَوْکَانَ فِيْ الْعَالَمِ مَنْ یَسْمَعُ
کَمْ وَاثِقٍ بِالْعُمْرِ أَفْنَیْتُہٗ
وَجَامِعٍ بَدََّتْ مَا یَجْمَعُ
’’دنیا اپنے متعلق پکارتی ہے ، اگر کوئی اس جہاں میں سننے والا ہو۔ کتنے ہی ہیں کہ جن کو اپنی زندگی پر بڑی امید تھی ، اور ان کو میں نے فنا کردیا۔اور جمع کرنے والے ان کے لیے ظاہر کردیا جو چیز وہ جمع کررہے ہیں ۔‘‘
ایک اور شاعر کہتا ہے:
إِذَا اشْتَبَکَتْ دَمُوْعُ فِي خُدُوْدٍ
تَبَیَّنُ مَنْ بَکٰی مِمَّنْ تَبَاکَی
فَأَمَّا مَنْ بَکٰی یَذُوْبُ شَوْقاً
وَیَنْطِقُ بِالْھَذَي مِمَّنْ تَبَاکَی
’’ جب رخساروں پر آنسوؤں کی لڑیاں بندھ جائیں گی تو حقیقی رونے والا مکر کرنے والے سے جدا ہوجائے گا۔ جو رونے والا ہوگا ، وہ فطرت شوق میں پگھل رہا ہوگا، اور رونے جیسا بناوٹی منہ بنانے والا صرف باتیں ہی کرتا رہ جائے گا۔ ‘‘
****