کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 415
ہے۔ ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتارہاہوگا، اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہوگا، تو بے شک اس کاٹھکانا جنت ہی ہے۔ ‘‘
ان لوگوں کا نجام انتہائی برا ہوگا، جو اللہ کی یاد سے یکسر غافل ہیں ۔ نہ خود ان کے دل میں احساس وشعور پیدا ہوتا ہے ، اور نہ نصیحت ان پر کارگر ہے ،دنیاوی عیش وعشرت نے ان کو اندھا کرکے رکھ دیا ہے؛ ایسے لوگوں کی آنکھیں کھلنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ ﴿٧﴾ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨﴾ (یونس:۷،۸)
’’ جو لوگ ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں رکھتے ،اور وہ دنیا کی زندگی سے راضی اور اسی سے جی لگا بیٹھے ، اور وہ لوگ جو ہماری آیا ت سے غافل ہیں ، ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ان کے اعمال کی وجہ سے جہنم ہے۔ ‘‘
اس عمر کی مقدار کیا ہے؟ جس کی زیادہ سے زیادہ حد سو سال ہے۔ اس میں بھی پندرہ سال بلوغت سے قبل بچپن کی جہالت کے،اور ستر کے بعد اگر کوئی زندہ رہا تو تیس سال بڑھاپے اور عاجزی کے۔ جو درمیانی عرصہ باقی بچ رہا، اس میں بھی آدھا نیند کا، اور بعض وقت کھانے پینے، اور روزی کمانے کا،اور جو عبادت کے لیے باقی بچا وہ انتہائی تھوڑا ہے۔ پس اس تھوڑے کے بدلے بھی وہ دائمی نعمتیں نہیں خریدرہا۔ حقیقت میں خرید وفروخت کی اس تجارت سے منہ موڑ لینا عقل میں واضح کھوٹ ، اور کمزور ایمان کی علامت ہے۔
لَا تَأْسَفْ عَلَی الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا
فَالْمَوْتُ لَا شَکَ یُفْنِیْنَا وَیُفْنِیْھَا
وَاعْمَلْ لِدَارِ ا لْبَقَائِ رِضْوَانُ خَازِنُھَا
وَالْجَارُ أَحْمَدُ وَالرَّحْمٰنُ بَانِیْھَا