کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 411
رزق پاتے ، اور وہ کہتے : اے مریم! تمہارے پاس یہ کہاں سے آگیا ؟ وہ فرماتیں : یہ اللہ کی طرف سے ہے ، بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں بغیر حساب کے رزق عطا فرماتے ہیں ۔‘‘
میر ببر علی انیس نے شاید اسی منظر کو یوں قلم بند کیا ہے:
گوہر کو صدف میں آبرو دیتا ہے
جس کو چاہے بغیر جستجو دیتا ہے
انسان کو رزق ، گل کو بو ، سنگ کو لعل
جو کچھ دیتا ہے جس کو تو دیتاہے
لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ، ان کی کئی زرہیں گروی رکھی ہوئی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو آپ کو بھی سیّدہ مریم کی طرح دے سکتا تھا، اور ذکریا کو بھی۔ مگر یہ سب کچھ اس امت کو محنت کی تعلیم دینے کے لیے سباب کے تحت رکھا۔ اسی لیے حکم الٰہی یہ ہے :
﴿ فَابْتَغُوا عِندَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ﴾(العنکبوت:۱۷)
’’ سو اللہ کے ہاں رزق تلاش کرو، اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((وَاللّٰہِ مَا الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ ، وَلٰکِنِّي أَخْشٰی أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلَی مَنْ َکانَ قَبْلَکُمْ؛ فَتَنَافَسُوہَا کَمَا تَنَافَسُوْہَافَتُہْلِکَکُمْ کَمَا أَہْلَکَتْہُمْ۔))[1]
’’ اللہ کی قسم ! میں تم پر فقر سے نہیں ڈرتا، لیکن تمہارے متعلق اس بات کا خوف محسوس کرتا ہوں کہ تم پر دنیا ایسی کھول دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کھول دی گئی تھی ، اورتم اس میں ایسے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے لگو
[1] البخاری باب ما یحذر مِن زہرۃِ الدنیا والتنافسِ فِیہا بررقم (۶۴۲۵)۔ مسلم في الزہد والرقائق برقم(۷۶۱۴)۔