کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 41
اور فرمایا: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ‎﴿١﴾‏ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ‎﴿٢﴾ لیل ’’اور رات کی قسم جب وہ چھا جائے ،اور دن کی قسم جب وہ روشن ہوجائے۔ ‘‘ جب اللہ تعالیٰ بار بار مختلف اوقات کی قسمیں اٹھارہے ہیں ؛ اورلوگوں کو عمل کرنے کی طرف متوجہ کررہے ہیں ؛ کہ یہ اوقات بہت ہی مختصر ہیں ،اور بہت تیزی سے کٹ رہے ہیں : صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے جب ہم مخلوق خدا کی طرف دیکھتے ہیں تو عجیب حال ہے ۔ کوئی کار انہیں سوجھ نہیں رہا؛ نہ دنیا کا کام نہ ہی آخرت کا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ کئی لوگوں کومسلسل فراغت وقت یعنی بیکاری کاسامنا ہے۔ وہ بھی اس وجہ سے مختلف قسم کی منصوبہ بندیاں کرتے ہیں ،خواہ ان کی تکمیل ممکن ہوسکے یا نہیں ؛ تاہم وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو مصروف رکھا جائے ؛ اور کوفت (ذہنی پریشانی اور تنگی )سے نجات حاصل ہو۔ مگر اس سے بڑھ کر ایک اور سوال جواکثر لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے ، اور آنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ان اوقات کو کس طرح زیادہ سے زیادہ یادگار، کار آمد، خوش بختی اور سعادت کا ذریعہ بنایا جائے؟ آنے والے صفحات میں وقت کی خصوصیات ، ان میں حسن تصرف، اور ضیاع وقت کے حوالے سے بات ہوگی۔ وقت کی قیمت ،ممکنہ اعمال اور ان پر اجروثواب کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ حریص انسان کو فائدہ سے بہرہ مند فرمائیں ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((إ نی لأکرہ أن أری أحدکم سبہللا؛ لا فی عمل دنیا ولا فی عمل آخرۃ)) ((بیشک مجھے یہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ میں تم میں سے کسی ایک کو فارغ بیٹھے ہوئے دیکھوں ، نہ ہی اسے دنیا کا کوئی کام ہو او رنہ ہی آخرت کا))۔مجمع الأمثال ۲/ ۱۷۲۔