کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 407
ایک حدیث میں عمل کی اہمیت بیان کرنے کے لیے یوں فرمایا گیا ہے :
((مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِکْرِيْ عَنْ مَسْأَلَتِيْ أَعْطَیْتُہٗ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِیْنَ۔))[1]
’’ جس کو قرآن کی تلاوت اور میرا ذکر(یاد) مانگنے سے دور رکھیں ،میں اسے اس سے افضل اور بہتر دیتا ہوں جو میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں ۔ ‘‘
اس حدیث پر غور کریں :عمل کی اہمیت کتنے واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے ، کہ بجائے فقط دعا پر انحصار کرنے کے انسان کو عمل کرنا چاہیے، جس میں کامیابی اور فلاح کاراز مضمر ہے۔
میدان عمل اور اعمال کا موضوع بہت مختلف ، متنوع اور طویل ہے۔ یہاں مقصود صرف اتنا ہے کہ دنیاوی امور میں مہارت حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے لازم اور ان کے شایانِ شان ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک دنیاوی ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کو اپنے امور دنیا میں مہارت تامہ حاصل نہ ہو؛ اور انسان وقت کے ساتھ ساتھ نہ چلے۔ ایسے نہیں ہوسکتا کہ ہم عصری تقاضوں سے بے بہرہ ہوکر ان ہی سابقہ روایات کا اہتمام کریں جن کا وجود ہی اب باقی نہیں رہا ، یا جو اس دور میں کسی بھی طرح کار گر نہیں ہوسکتیں ۔ مولانا حالی رحمہ اللہ نے کامیاب لوگوں کی صفات کو یوں الفاظ بند کیا ہے ، فرمایا:
جو گرتے ہیں گر کر سنبھل جاتے ہیں وہ پڑے زد تو بچ کر نکل جاتے ہیں وہ
ہر ایک سانچے میں جاکے ڈھل جاتے ہیں وہ جہاں رنگ بدلا بدل جاتے ہیں وہ
ہر ایک وقت کا مقتضا جانتے ہیں
زمانے کے تیور وہ پہچانتے ہیں
جب تک مسلمان علوم وفنون میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے ان کے نصیب کا سورج بامِ عروج پر تھا۔ جب انہوں نے سستی و لاپروائی ، غفلت وبے اعتنائی ، بیزاری وبے رغبتی کا مظاہرہ شروع کیا توان کا زوال شروع ہوا۔ دنیا میں کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جن کے موجد
[1] الترمذی؍بدون ذکر الباب ؛حسن ،۲۹۲۶۔