کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 406
اس حدیث میں چند ایک باتیں قابل توجہ ہیں :
٭ نفع مند چیز کے حصول کے لیے حرص ، کوئی چیز بیٹھے بیٹھے حاصل نہیں ہوجائے گی، بلکہ اس کے لیے کام کرنا پڑے گا۔
٭ اللہ تعالیٰ سے مدد کی طلب، اور دعا؛ وہی طاقت وتوانائی کا اصل سر چشمہ ہے ،اس کی رضامندی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔
٭ انسان خود کو عاجز یا کمزور نہ سمجھے ، اور نہ اپنی صلاحیتوں کو گنوا دے ، بلکہ ہر حال میں جتنی صلاحیت اور قوت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اسے عزم و جزم کے ساتھ بروئے کار لاکر جانب منزل محو ِ سفر رہے۔
٭ اگر کوئی چیز کوشش کے باوجود حاصل نہ ہوسکے تو اپنی تدبیر اور کوشش کو نہیں کوسنا چاہیے ، اور نہ اپنے نفس پر شکوہ کرنا چاہیے ، ہائے افسوس اور تقدیر پر شکوہ کرنے کی بجائے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتے ہوئے معاملہ اسی کے سپرد کردے ، اور کہے : جو اللہ نے تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا، میری کوشش کا ثمر آور ہونا اللہ کو منظور نہیں تھا۔ یہی ایک سچے مومن کی شان ہے۔
٭ اپنے کیے پر افسوس اور سابقہ وقت اور تدبیر کو برا بھلا کہنا ایمان میں کمی کی علامت ہے ، اور اس سے شیطان کے لیے دروازے کھلتے ہیں ، اور وہ انسان کے دل میں اللہ کی ذاتِ اقدس کے متعلق بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
انسان کتنا بھی دین دار اور عالم باعمل کیوں نہ ہو، دنیا میں رہنے کے لیے اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خود محنت کی ، بکریاں چرائیں ، تجارت کی، مزدوری کی، اپنے کام اپنے ہاتھ سے کیے ، بلکہ لوگوں کے کام بھی آئے ، اورانہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنْ الْدُّنْیَا ﴾ (القصص: ۷۷)
’’ اور دنیا میں سے اپنے حصہ کو بھلا نہ دیجیے۔ ‘‘