کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 392
الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ﴾ (النساء:۱۸) ’’ ان لوگوں کی کوئی توبہ نہیں ہے جو گناہ کرتے رہیں ، جب موت کا وقت آجائے ، اور پھر کہیں اب توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ ۲: اور عام وقت سورج مغرب سے طلوع ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔))[1] ’’جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کرلی ، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں ۔ ‘‘ توبہ قبول ہونے کے لیے پانچ شرطیں ہیں : ۱: اخلاص :یعنی صدق دل سے توبہ کی جائے ،صرف زبانی دعویٰ نہ ہو۔ ۲: اقلاع: جس گناہ سے توبہ کی جارہی ہے، اسے فوراً چھوڑدیا جائے، اسی میں لگا نہ رہے۔ ۳: عدم رجوع: اس بات کا پکا عزم ہو کہ آئندہ کے لیے یہ گناہ دوبارہ نہ کیا جائے گا۔ ۴: ندامت : انسان اس گناہ کے ہوجانے پر خوش نہ ہو، بلکہ دل میں گہری ندامت ہوکہ جو گناہ ہوگیا، ا سے نہیں ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ یہ اللہ کی نافرمانی کاکام ہے۔ ۵: ابراء ذمہ: یہ بندوں کے حقوق سے متعلق ہے۔ یعنی اگر کسی کا حق مارا ہے، یا کسی پر ظلم کیا ہے تو اسے حق ادا کیاجائے ، یا وہ معاف کروایا جائے۔ صدقہ: صدقہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے رزق حلال میں سے کچھ مال حسب استطاعت اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے لیے فقراء و مساکین پر خیرات کردے۔ایسا کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت اور ایمان کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
[1] مسلم باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ ح ۷۰۳۶ ۔ابن حبان باب التوبۃ برقم ۶۲۹۔