کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 39
پہلا باب: وقت کی قیمت اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اس کے پاس سب سے قیمتی ترین سرمایہ کون سا ہے ؟ تو یقیناً اس کا مناسب ترین جواب یہی ہوگا کہ صحت اور وقت۔ یہ دو ایسی لا جواب و لاثانی نعمتیں ہیں جن کا مقابلہ کسی دوسری چیز سے نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے شارع علیہ السلام نے اس جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ : «نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ: اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ۔»1[1] ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی بابت بہت سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ، صحت اور فراغت۔ ‘‘ صحت مند یہ سمجھتا ہے کہ اس کی صحت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ اور فارغ البال انسان سمجھتا ہے کہ اسے کبھی کوئی فکر اور پریشانی یا نہ ختم ہونے والی مشغولیت لاحق نہیں ہوگی۔ لیکن پھر جلد ہی وہ لمحات سر پہ آن کھڑے ہوتے ہیں جب یہ سب کچھ قصہ ٔ پارینہ ہوجاتا ہے۔ ان دو نعمتوں میں سے بھی اگر زیادہ انمول اور گراں قدر کوئی چیز ہے تو وہ ’’ وقت کی نعمت ‘‘ ہے۔ وقت ہی اصل میں زندگی ہے ۔ جب کسی انسان کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ اگر کسی نے وقت کو بیکار گزارا تو اس نے زندگی بیکار گزاری ؛ اور اگر کسی نے وقت کو کار گر بنا لیا تو اس نے اپنی زندگی کو کارگر بنالیا ۔ وقت کو بہتر طور پر کامیاب بنانے اور اسے استعمال میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں ؛ اس کے ارکان و عناصر پر غور و فکر کریں ، اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی تیار کریں
[1] رواہ البخاری ِکتاب الرِقاقِ ؛ باب لا عیش إِلا عیش الآخِرۃِ، برقم ۶۴۱۲ ؛ والترمذي؛باب: الصحۃ و الفراغ نعمتان… برقم ۲۳۰۴، صحیح ابن ماجۃ ؛باب : الحکمۃ؛ ح: ۴۱۷۰۔ کلہم من حدیث ابن عباس)