کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 388
بِقَوْمٍ یَذْنِبُوْنَ، وَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ تَعَالیٰ فَیَغْفِرُ لَہُمْ۔))[1] ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگرتم بالکل ہی گناہ نہ کرو، تو اللہ تعالیٰ تم کو اس دنیا سے لے جائے گا، اور تمہاری جگہ ایسی قوم لے آئے گا، جو گناہ بھی کریں گے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس پر معافی بھی مانگیں گے ، اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردیں گے۔‘‘ اس سے مراد ہمیں گناہوں کی اجازت دینا نہیں ؛ بلکہ یہ بتانا ہے کہ گناہ کرنا اتنا قبیح جرم نہیں ، جتنا اس گناہ پرتوبہ نہ کرنا بڑا جرم ہے۔ جبکہ انسان سے بشری تقاضے کے تحت گناہ کا ہونا ایک عام سی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عذاب سے نجات کے لیے دو نعمتوں سے نوازا؛ ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ مقدس ، اور دوسرا خود مومنین کا استغفار کر نا۔ فرمایا: ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ‎﴿٣٣﴾ (الانفال:۳۳) ’’ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دیں گے جب تک آپ ان میں موجودہوں ، اور اس وقت تک عذاب نہیں دیں گے جب تک وہ استغفار کرتے رہیں ۔‘‘ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے مقام پر پہنچ گئے، اور استغفار ہم میں قیامت تک کے لیے باقی ہے۔‘‘ ایک بزرگ نے تقریر کرتے ہوئے بڑی ہی عجیب اور فائدے کی بات کہی، فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ انسان کو گناہ کی وجہ سے جہنم میں داخل نہیں کرے گا، بلکہ اس وجہ سے جہنم میں داخل کرے گا کہ ا س نے توبہ کیوں نہیں کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت متقین کی صفات یوں بیان کی ہیں : ﴿ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَٰلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ
[1] مسلم باب سقوط الذنوب بالاستغفار توبۃ برقم ۷۱۴۱۔مسند أحمد بن حنبل برقم ۲۶۲۳۔